چین نے اپنے کھانے کے نظام میں اصلاحات لانے اور اقوام متحدہ کے ۲۰۳۰ ایجنڈے کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے غذائی اجناس کے زیاں کو کم کرنے کی خاطر کی جانے والی عملی کوششوں کی رفتار تیز کردی ہے۔بائیس دسمبر کو تیرہویں قومی عوامی کانگریس کی مجلس قائمہ کے چوبیسویں اجلاس میں " خوراک کے زیاں کے خلاف عوامی جمہوریہ چین کا مسودہِ قانون"جائزے کے لیے پیش کیا گیا ۔ اس مسودے میں خوراک کے ضائع ہونے کی وضاحت کی گئی ہے جس کے مطابق "ایسے کھانے کا استعمال نہ کیا جاناجس کی پیداوار کا مقصد ہی استعمال کیا جانا ہو اور جو کھانے پینے کے لیے محفوظ ہو " خوراک کا زیاں کہلاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں انتباہ کیا گیا ہے کہ دنیا پچاس سالوں میں خوراک کے بدترین بحران کا سامنا کرنے جا رہی ہے۔ ۲۰۱۹ میں دنیا بھر میں لگ بھگ 690 ملین افرادغذائی قلت کا شکار تھے۔ تاہم افریقہ ، مشرق وسطی اور ایشیاء کےمتعدد خطے جو غذائی بحران سے دوچار ہیں وہاں کچھ متمول علاقوں میں بچ جانے والی یا ضائع شدہ خوراک کی مقدار چونکادینے والی ہے۔ (ڈبلیوڈبلیو ایف) اور چینی اکیڈمی آف سائنسز نے چند برس قبل مشترکہ طور پر ایک فیلڈ ریسرچ کی اور چین کے چار بڑے شہروں بیجنگ ، شنگھائی ، چھنگ دو اور لہسا سے جو اعدادو شمار حاصل ہوئے ان کے مطابق چین میں شہری سالانہ 17 سے 18 ارب کلو کھانا ضائع کرتے ہیں ، جو 30 سے 50 ملین افراد کے سالانہ کھانے کے برابر ہے ۔ تحقیقات کے مطابق پرائمری اور سیکنڈری اسکول کے طلباء ، اور سرکاری ضیافتیں خوراک کے اس زیاں کی بڑی وجوہات تھیں ۔ چین نے اس مسئلے کو یہیں پر روکنے کے اقدامات اختیار کرنے شروع کیے اور عوامی شعور کی مہم کو تیز تر کیا۔
یو ایس ڈی اے کی اکنامک ریسرچ سروس کے مطابق ، امریکہ میں غذائی کھپت کا 30 سے 40 فیصد ضائع ہوتا ہے ۔ یورپی یونین کے کمیشن کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپی یونین ممالک میں سالانہ تقریباً ۱۴۳ بلین یورو ڈالر مالیت کی ۸۸ بلین کلو خوراک ضائع ہوتی ہے ۔
آج ،کووڈ-۱۹ کی وبا کے تناظر میں ، مختلف ممالک میں مسلح تنازعات ، شدید موسمی و جغرافیائی تبدیلیوں اور معاشی سست روی کی وجہ سے خوراک کی تباہی و زیاں تیزی سے ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔
چین کی وزارتِ ہنگامی امور کے مطابق چین کے ستائیس جنوبی صوبوں میں سیلاب سے تین لاکھ ہیکٹر پر فصلوں کو نقصان پہنچا ۔ 2020 میں اناج کی پیداوار تقریبا 11.2 ملین ٹن رہی جو 2019 میں ملک کی کل فصل کی پیداوار کا 1.69 فیصد ہے۔ تاہم وزارت کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ مربوط پالیسیوں اور طویل مدتی منصوبہ بندی کے باعث سیلاب کے ان اثرات پر قابو پا لیا جائے گا اور اس سے چین کی غذائی سپلائی یا قیمتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
چین کی حکمت عملی اب صرف اناج اگانے اور اس کی فراہمی تک محدود نہیں ہے بلکہ اگلا قدم فصلوں کو تباہی سے بچانے اوربچ جانے والی قابلِ استعمال خوراک کو ضائع ہونے سے بچانے کا ہے تاکہ اس نعمت کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے ۔ اسی لیے خوراک کے زیاں کو روکنے کے حوالے سے جو قانونی مسودہ نظرِ ثانی کے لیے پیش کیا گیا اس میں ایسے پروگراموں یا سمعی و بصری پیغامات پر پابندی لگائے جانے کو بھی شامل کیا گیا ہے جوکسی بھی حوالے سے خوراک کے زیاں کو دکھاتے یا فروغ دیتے ہیں۔ یہ تجویز بھی پیش کی گئی ہے کہ کیٹرنگ سروس کے منتظمین ،فاضل خوراک کا بندوبست کرنے کے لیے ایسے صارفین سے فیس وصول کر سکتے ہیں جو جان بوجھ کر خوراک ضائع کرتے ہیں ۔خوراک کی پیداوار اور اس کی ترسیل سے منسلک افراد کو بچ جانے والی خوراک عطیہ کرنے کے لیے رہنمائی فراہم کی جائے گی تاکہ وہ خوراک یا کھانا جو بک نہ سکا ہو وہ ضائع نہ ہو بلکہ مختلف سماجی تنظیموں اور فلاحی امدادی ایجنسیوں کے ذریعے اسے تقسیم کیا جا سکے ۔ بلاشبہ یہ چین کا ایک بے حد مستحسن اقدام ہے اور غربت کے خاتمے کی طرح یہ بھی یقیناً باقی دنیا کے لیے بھی ایک قابلِ تقلید مثال بنے گا۔