چاند کی مٹی کے نمونے کو زمین پر لانا ،دس ہزار میٹر کی گہرائی تک ڈائیونگ،تیز ترین کوانٹم کمپیوٹرکی تیاری ،بیدو سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم کے عالمی نیٹ ورک کی تکمیل…… دو ہزار بیس میں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں چین کے حاصل کردہ ثمرات ہیں۔ان تاریخی کامیابیوں کے کئی اسباب ہیں جن میں پہلا چینی قیادت کی جانب سے جدت کاری کے فروغ کو اولین قوت محرکہ قرار دینا ہے۔اکتوبر کے آخر میں شایع چودہویں پانچ سالہ منصوبہ بندی کی تجاویز میں جدت کاری کو چین کی جدید سازی میں کلیدی اہمیت دینے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔دوسری طرف چین کی سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں ثمرات کے لیے علمی اثاثہ جات کے تحفظ کو یقینی بنانا بھی کافی اہم ہے۔عالمی کاپی رائٹس تنظیم کے دسمبر میں جاری کردہ سالانہ رپورٹ کے مطابق دو ہزار انیس میں چین میں پیٹنٹ کی درخواستیں چودہ لاکھ تک جاپہنچی جو دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔اقتصادی عالمگیریت کے تناظر میں تخلیقی عوامل مزید کھلے رویے پر مبنی ہیں۔جیسا کہ چینی صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو تن تنہا تخلیقی مرکز بن سکتا ہے یا تخلیقی ثمرات سے استفادہ کرسکتا ہے۔تخلیقی ثمرات کو پوری دنیا کے لیے فائدہ مند ہونا چاہیئے۔چین اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ملک ہے۔جون دو ہزار بیس میں بیدو گلوبل سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم کی تکمیل ہوئی جس کے بعد دنیا میں نصف سے زائد ممالک بیدو سسٹم کا استعمال کرنے لگے ہیں جس سے مختلف ممالک کی اقتصادی ترقی کو خوب فروغ اور ترقی کی نئی گنجائش ملی ہے۔