حال ہی میں ، امریکی رہنما نے "2021 کے مالی بل" پر دستخط کیے ، جس میں نام نہاد "تائیوان اشورنس ایکٹ" شامل ہے۔ یہ شق امریکی حکومت کے تائیوان کو اسلحہ کی فروخت کو معمول پر لانے اور متعدد اہم بین الاقوامی تنظیموں میں تائیوان کی شمولیت کی حمایت کرتی ہے۔ اس کارروائی سے چین کے داخلی امور میں زبردست مداخلت ہوئی اور چین کے قومی مفادات کو نقصان پہنچا۔چین اس کی شدید مذمت اورسخت مخالفت کرتا ہے۔تائیوان کا مسئلہ چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت سے متعلق ہے ، اور یہ چین اور امریکہ تعلقات میں سب سے اہم اور حساس مسئلہ ہے۔ 1978 میں شائع ہونے والے چین اور امریکہ کے مابین سفارتی تعلقات کے قیام کے اعلامیے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ امریکہ عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کو چین کی واحد جائز حکومت تسلیم کرتا ہے۔لیکن ، پچھلے چار سالوں میں ، امریکہ نے تائیوان کو 11 بار اسلحہ کی فروخت کا ارتکاب کیا ہے۔ مزید یہ کہ امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے حال ہی میں کہا ہے کہ "تائیوان چین کا حصہ نہیں ہے" جس سے چین اور امریکہ کے مابین سفارتی تعلقات کے قیام کے سیاسی بنیاد کو کھلے عام روند دیا گیا ہے۔ یہ اقدامات چین کے بنیادی مفادات کی سرخ لکیر کو بار بار چھور ہے ہیں ، اورآبنائے تائیوان میں مسلسل بڑھتی ہوئی کشیدگی کی اصل وجہ ہے۔تاہم ، امریکی سیاستدانوں کے پاگل پن سے کوئی طوفان برپا نہیں ہوگا۔ یاد رہے اس سے قبل ، چین نے تائیوان کو امریکی اسلحہ کی فروخت کے جواب میں امریکی فوجی صنعتی کاروباری اداروں ، متعلقہ افراد اور اداروں پر پابندیاں عائد کردی ہیں، جو قومی خودمختاری کے دفاع کے لئے چین کے پختہ عزم کا واضح ثبوت ہے۔