امریکی صدر کی جانب سے حال ہی میں ایک فرمان پر دستخط کے تحت چین کی آٹھ سافٹ ویئرکمپنیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔چین نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چھون اینگ نے واضح کیا کہ چینی کمپنیوں کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے تمام لازمی اقدامات کیے جائیں گے۔انہوں نے امریکی اقدام کو ریاستی طاقت کا ناجائز استعمال قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے خود امریکی مفادات کو بھی نقصان پہنچے گا۔
حالیہ عرصے میں امریکی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے چینی کمپنیوں کے خلاف تواتر سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جبکہ چین نے امریکہ سے بار ہا یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ منڈی کے معاشی اصولوں اور منصفانہ مسابقت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معاشی اور تجارتی قوانین کی بھی پاسداری کرے تاکہ غیرملکی کمپنیوں کو امریکہ میں سرمایہ کاری اور کام کرنے کے لئے ایک منصفانہ اور غیر امتیازی ماحول فراہم کیا جاسکے۔ امریکہ کی جانب سے جن چینی کمپنیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اُن میں علی پے ،کیم اسکینر ،کیوکیو ویلیٹ ،شیئر اٹ ، ٹینسنٹ کیو کیو ،وی چیٹ پے اور ڈبلیو پی ایس آفس شامل ہیں۔امریکی صدارتی فرمان پینتالیس روز کے اندر نافذالعمل ہو گا جبکہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اُس وقت تک امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن منصب صدارت سنبھال چکے ہیں۔ معروف میڈیا ادارے روئٹرز نے ایک اعلیٰ امریکی عہدہ دار کے حوالے سے یہ انکشاف کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایسے اقدامات کے حوالے سے بدستور یکطرفہ فیصلے کر رہی ہے اور نو منتخب جو بائیڈن انتظامیہ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ اس سے قبل بھی وی چیٹ اور ٹک ٹاک پر پابندیاں عائد کر چکی ہے مگر امریکی عدالتوں نے ایسے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ چین۔امریکہ تعلقات کو مزید الجھاتے ہوئے نئی امریکی انتظامیہ کے لیے مشکلات پیدا کرنا چاہتے ہیں جس کا واحد مقصد محض سیاسی مفادات کا حصول ہو سکتا ہے۔عالمگیریت کے موجودہ دور میں کاروباری اداروں کے مفادات ایک دوسرے سے قریبی وابستہ ہیں ،ایسے میں ریاستی طاقت کا اس طریقے سے ناجائز استعمال امریکی منڈی ، کاروباری اداروں اور مالیاتی کمیونٹی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔امریکی معیشت ویسے بھی کووڈ۔19کے باعث مندی کا شکار ہے ، اوپر سے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کاروباری اداروں پر پابندیوں جیسے اقدامات عالمی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا سکتے ہیں اور سرمایہ کاری کے حوالے سے اُن کی حوصلہ شکنی کے مترداف ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر قومی سلامتی کے پرانے بہانے کی آڑ لی گئی ہے مگر امریکی حکومت کسی قسم کے ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو ٹرمپ انتظامیہ کے چینی کاروباری اداروں کے خلاف تعزیری اقدامات" زیرو سم گیم" ذہنیت کے عکاس ہیں جس سے امریکہ میں بڑھتی ہوئی تجارتی تحفظ پسندی اور تجارتی بالادستی عیاں ہوتی ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کے برعکس امریکہ کے چند معروف کاروباری اداروں نے کبھی بھی ایسے تعزیری اقدامات کی حمایت نہیں کی ہے۔ نیو یارک اسٹاک ایکسچینج ، وال اسٹریٹ جیسے ادارے ہمیشہ ایسی امریکی پالیسیوں کے ناقد رہے ہیں۔
موجودہ معاشی صورتحال کے تناظر میں وائٹ ہاؤس میں بیٹھے فیصلہ سازوں کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ قانون کی حکمرانی اور مارکیٹ ضوابط کے احترام کی بنیاد پر ہی امریکی معیشت کو دوبارہ ترقی کی راہ پر لایا جا سکتا ہے، غیر ملکی کمپنیوں کے خلاف من مانے فیصلوں یا انہیں دباو میں لانے سے قواعد پر مبنی آزاد عالمی منڈی اور خود امریکی مفادات کو نقصان پہنچے گا۔