چھ جنوری امریکہ کی سیاسی تاریخ میں ایک سیاہ ترین دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا ۔قدیم جمہوریت کے دعویدار امریکہ میں صورتحال اُس وقت کشیدہ دیکھی گئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے ملک میں جمہوریت کی علامت سمجھی جانے والی کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل میں شدید ہنگامہ آرائی کی۔یہ واقعہ ایک جانب پوری دنیا کے لیے باعث حیرت اور افسوسناک تھا تو دوسری جانب اس سے امریکی معاشرے میں نفرت اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کے رویے بھی کھل کر سامنے آئے۔مظاہرین نے کیپٹل ہل پر چڑھائی کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا جب صدارتی انتخابات کے نتائج کی توثیق کے لیے کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔ا س اہم ترین سیاسی سرگرمی پر دنیا بھر کی نظریں مرکوز تھیں اور عالمی میڈیا بھی اسی انتظار میں تھا کہ کب امریکی کانگریس نو منتخب صدر جوبائیڈن کی صدارتی انتخابات میں کامیابی کی توثیق کرتی ہے مگر پرتشدد احتجاج کی وجہ سے کانگریس کی کارروائی کئی گھنٹوں تک التوا کاشکار رہی اور مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں بھی دیکھنے میں آئیں۔
امریکی سیاست کا ہمیشہ سے ایک پہلو رہا ہے کہ یہاں صدارتی انتخابات میں ہار اور جیت کو کھلے دل سے تسلیم کیا جاتا رہا ہے. مگر حالیہ انتخابات کے نتائج کو صدر ٹرمپ کی جانب سے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔اُن کا ہمیشہ یہ دعویٰ رہا کہ صدارتی انتخابات کو چوری کیا گیا ہے ،اسی باعث تجزیہ نگاروں کے نزدیک صدر ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو اکسایا جس کا نتیجہ کیپٹل ہل کی عمارت پر چڑھائی کی صورت میں نکلا اور امریکہ کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔خود کو مہذب ،باشعور اور جمہوریت پسند کہلانے والے امریکی شہریوں نے تمام تر اخلاقی حدوں کو پامال کرتے ہوئے امریکی قانون سازوں کے دفاتر میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ ،نعرے بازی اور شدید ہنگامہ آرائی کی۔
دنیا بھر سے حکومتی عہدیداروں اور بین الاقوامی تنظیموں کے رہنماؤں نے امریکی دارالحکومت میں پرتشدد مظاہروں پر جہاں افسوس کا اظہار کیا وہاں تشدد کی فوری طور پر روک تھام اور اقتدار کی پر امن اورقانونی منتقلی پر بھی زور دیا ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئتریس نے اپنے پیغام میں کہا کہ ایسے حالات میں یہ ضروری ہے کہ سیاسی رہنما اپنے حامیوں کو تشدد سے باز رہنے کے ساتھ ساتھ جمہوری عمل اور قانون کی حکمرانی کے احترام کا درس دیں۔ یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نےاقتدار کی پرامن منتقلی کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو بائیڈن الیکشن جیت چکے ہیں۔برطانیہ ،جرمنی ،اسپین ،آسٹریلیا اور دیگر بے شمار ممالک کے رہنماوں نے بھی امریکہ میں ہنگامہ آرائی کو افسوناک قرار دیا۔چین کی جانب سے بھی اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ امریکی عوام جلد سے جلد امن ، استحکام اور سلامتی سے لطف اندوز ہوسکیں ۔
امریکی دارالحکومت میں ہنگامی آرائی کا ایک اور افسوسناک پہلو پانچ لوگوں کی ہلاکتیں بھی ہیں۔اگرچہ صدر ٹرمپ نے اپنے تازہ ترین بیان میں امریکی دارالحکومت میں تشدد ، لاقانونیت اور ہنگامی آرائی پر افسوس کا اظہار کیا مگر شائد اب بہت دیر ہو چکی ہے۔قانون سازوں کی جانب سے صدر ٹرمپ کو عہدے سے فوری ہٹائے جانے کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں جبکہ کئی اعلیٰ عہدہ دار اپنے عہدوں سے استعفے دے چکے ہیں۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ کا ساتھ دینے والا اب کوئی نہیں بچا ہے ،انہوں نے اپنی مدت صدارت میں جس قوم پرستی ،نسلی امتیاز اوریکطرفہ پسندی کو ہوا دی ،شائد کیپٹل ہل پر چڑھائی بھی اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن کیسے امریکی معاشرے میں بڑھتے ہوئے امتیاز ،عدم برداشت اور تفریق کو روک پاتے ہیں ، جو یقیناً اُن کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔