مقامی وقت کے مطابق تیرہ تاریخ کو انڈونیشیا کے صدر جو کو ویدودو نے چینی کمپنی کی تیار کردہ کووڈ-۱۹ کی ویکسین لگوائی ،جوکو ویدودو چینی ساختہ کووڈ-۱۹ کی ویکسین لگوانے والے پہلے سیاسی رہنما نہیں ہے۔اس سے قبل سیچلس کے صدر اوراردن کے وزیر اعظم سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں نے چین کی ویکسین لگوائی۔ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ پچھلے سال چھبیس ستمبر میں ہی بحرین کے ولی عہد اور وزیر اعظم سلمان بن حماد نے رضاکار کی حیثیت سے تیسرے آزمائشی مرحلے میں چینی ویکسین لگوائی۔ پاکستان کی بہت سی ممتاز سیاسی شخصیات بشمول اعلیٰ حکومتی عہدیداران نے کورونا وائرس کی چینی ساختہ ویکسین لگوائی ہے۔ ان شخصیات میں وفاقی وزیر برگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ اور گورنرپنجاب چوہدری محمد سرور اور ان کی اہلیہ بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل ، پاکستان، انڈونیشیا،مصر،متحدہ عرب امارات اور بحرین سمیت دیگر ممالک نے چینی ویکسین کی منڈی تک رسائی کی منظوری دی اس کے ساتھ ساتھ تھائی لینڈ ،برازیل اور یوکرائن سمیت دیگر ممالک نے چین سے ویکسین کی خریداری کا اعلان کیا۔مذکورہ بالا خبروں سے ظاہر ہ ہوتا ہے کہ دنیا کے چین پر اعتماد میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
کووڈ-۱۹ کی وبا اگر طوفان ہے ، تو اس طوفان کے سامنے بنی نوع انسان ایک ہی کشتی میں سوار مسافروں کی طرح ہیں۔اس طوفان کا مقابلے کرنے میں کچھ بڑی طاقتوں کے سیاستدانوں نے خود غرضی کا مظاہرہ کیا ہے ، بعض سیاستدانوں نے یک طرفہ پسندی اختیار کی اور خود کو "فرسٹ" بنا کر دوسروں کی مدد سے انکار کیا،یا پھر دوسروں پر الزامات کی بوچھاڑ کی، انہوں نے عالمی سطح پر تنازعات کو ہوا دی۔ لیکن اتحاد کے وقت انتشار کی سیاست سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔
اس کے برعکس چین نے وبا کے مقابلے میں ہر حوالے سے ذمہ دارانہ رویے کامظاہرہ کیا ہے۔
چین نے فوری طور پر وائرس کی جینیاتی ترتیب شئیر کی، اندرون ملک وبا پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کی بھرپور مدد کی۔ وبا کے خلاف ویکسین کی تیاری اور تقسیم کا مرحلہ آیا تو چین نے تعاون اور کھلے پن کے دروازے کو مزید وسیع کیا۔ چین نے ابتدا ہی میں اعلان کردیا تھا کہ ویکسین کو عالمی سطح پر عوامی استعمال کی مصنوعات میں شامل کیا جائے گا اور کم ترقی یافتہ ممالک اور علاقوں میں ویکسین کی زیادہ سے زیادہ فراہمی کو آسان بنایا جائے گا۔
دو ہزار اکیس میں بنی نوع انسان کو وبا کے علاوہ اور بھی بہت سے چیلنجز درپیش ہیں جن میں نا انصافی ، عدم مساوات،موسمیاتی تبدیلی اور یک طرفہ پسندی وغیرہ شامل ہیں۔ان تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لوگوں کو متحدہ ہونا چاہیئے اور ایک دوسرے کی حمایت کرنی چاہیئے۔اس عمل میں قابل اعتماد شراکت دار ،جو طاقتور ساتھیوں کو دبانے کی بجائے تعاون کرتے ہیں،کمزور اقوام میں مداخلت کی بجائے بے لوث مدد کرتے ہیں،اپنا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی بجائے اپنی ذمہ داری سنجیدگی سے نبھالتے ہیں،بڑی قیمتی نعمت ہیں۔