میں نے زندگی میں کبھی صحرا نہیں دیکھا تھا لیکن صحرا کی زندگی کے حوالے سے میرے ذہن ایک واضح تصور موجود تھا ۔ اس تصور کو قائم کرنے میں فلپس کے ہٹی اورپولو کوہلو کی کتابوں اور چند انگریزی فلموں اور ٹی وی ڈراموں کا اہم کردار تھا۔ اس تصور میں صحرا کی زندگی نہایت سخت، دشوار گزار اور مصائب سے بھرپور تھی۔ صحرا میں پانی کی تلاش میں سراب کا پیچھا کرنے والوں کی پیاس کی شدت، گرداب میں پھنسنے والوں کی آنکھوں کا خوف اور راستہ بھٹک کر ایک ٹیلے سے دوسرے ٹیلے تک بھاگنے والوں کی تڑپ میں نے بارہا محسوس کی تھی۔ آج ہمارے ٹور گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد ہمیں صحرائے تکلامکان لے جایا جائے گا تاکہ ہم وہاں کے لوگوں کے رہن سہن کے بارے میں جان سکیں تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ آج مجھے اس تصوراتی زندگی کو حقیقت میں دیکھنے کا موقع میسر آرہا تھا جس کو دیکھنے کے لئے شاید میرے ذہن و قلب عرصے سے منتظر تھے۔
دوپہر تقریباً دوبجے ہم اپنی کوسٹر میں سوار ہوچکے تھے -ہماری اگلی منزل صحرائے تکلامکان تھی۔صحرائے تکلامکان چین کے سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے کے تارم بیسن کے جنوبی حصے میں واقع ہے ، مقامی زبان صحرائے تکلامکان کا مطلب ہے "زمین کے نیچے شہر " ہے۔ یہ صحرا تقریباً 1000 کلومیٹر طویل اور 400 کلومیٹر وسیع ہے ۔ اس کل رقبہ تقریباً 337600 مربع میڑ ہے۔ یہ صحرا چین میں سب سے بڑا اور دنیا میں دسواں بڑا اور دوسرا بڑا "بہتا ہوا " صحرا ہے۔ اسے چین کا خوبصورت ترین صحرا قرار دیا جاتا ہے۔اس صحرا میں اُگنے والا درخت پالولس یو فریٹیکا اس صحرا کی خوبصور تی اور بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
ہماری اردو سروس کی ساتھی مسرت صاحبہ اور نورین صاحبہ کچھ عرصہ قبل ہی اس صحرا کی سیر کر چکی تھیں۔لہذا راستے میں نورین صاحبہ سے اس بار ےمیں بہت کچھ جاننے کو ملا۔یہ نومبر کا دوسرا ہفتہ تھا ۔ہمیں بتایا گیا کہ صحرا میں دن اور رات کے درجہ حرارت میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے ۔لہذا آپ گرم ٹوپیاں، گلوز اور لانگ کوٹ ساتھ ضرور رکھیں۔ تقریباً دو گھنٹے سفر کرنے کے بعد ہم صحرا میں واقع اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچ گئے۔ چین میں غربت کے خاتمے کی کوششوں کے سلسلے میں اس صحرائی حصے کو ٹورسٹ ریزارٹ میں تبدیل کیا گیا تھا۔ یہاں تقریباً پانچ کلومیٹر طویل لکڑی کے تختوں کا ایک پل تھا جس پر واک کرنے کا اپنا ہی مزہ آیا۔ انہی تختوں پر تقریباً ایک گھنٹے تک سفر کرتے کرتے ہم تین کلومیٹر آگے آچکے تھے ۔ یہاں درختوں کا ایک جھنڈ موجود تھا جو ٹنڈ منڈ کھڑے تھے۔ ان میں ایک پر اسراریت تھی۔ ان درختوں کی لمبائی کچھ زیادہ نہ تھی اور نہ ہی تنے بہت زیادہ موٹے تھے لیکن ان درختوں کی شاخوں کی چھال اس طرح ادھڑی ہوئی تھی جیسے کسی نے نوچ نوچ کر الگ کرنے کی کوشش کی ہو۔ اس سے قبل کہ میں اس بارے میں سوال کرتا نورین صاحبہ نے کہا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کون سا درخت ہے۔ میں نے جواب دیا کہ میں یہی جاننا چاہتاتھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پاپولس یو فریٹیکا کا درخت ہے۔ اس درخت کی چین خصوصاً سنکیانگ میں بہت زیادہ مثالیں دی جاتی ہیں۔ یہ درخت اپنی برداشت، موسمی سختیوں کا مقابلہ کرنے اور اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ ہزار سال تک بغیر پانی کے زندہ رہ سکتا ہے۔ ساز گار ماحول ملنے پر پھر سے جی اٹھتا ہے۔ مرنے کے ہزار سال بعد بھی نہیں گرتا اور گرنے کے ہزار سال بعد تک بھی اس کی لکڑی کو کیڑا نہیں لگتا۔ یہی نہیں اس درخت کی جڑیں اس کے تنوں اور شاخوں سے کہیں زیادہ لمبی اور گہری ہوتی ہیں۔ ان درختوں کی جڑیں زمین میں اندر ہی اندر ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ یہ صحرا کی بھر بھری ریت کو اس قدر مضبوطی سے جکڑ لیتی ہیں کہ اسے اڑنے نہیں دیتیں۔ یہ درخت رہیں نہ رہیں لیکن جہاں یہ ایک بار اُگ جاتے ہیں ۔اس ریت کو زمین بنا دیتے ہیں ۔ ایسی زمین جو اپنی اوپر بسنے والوں کے قدم پھسلنے نہیں دیتی، دھنسنے نہیں دیتی بلکہ انہیں مضبوطی سے جمائے رکھتی ہے۔
چین کے لوگ اس درخت کی مانند ہیں جو تمام مصائیب اور مشکلات کا جوانمردی سےمقابلہ کرتے ہیں ۔لیکن اپنی اصلی منزل کو نہیں بھولتے، چینی قدریں اس درخت کی جڑوں کی مانند ہیں جو اندر ہی اندر بغیر نظر آئے پوری قوم کو متحد رکھے ہوئے ہیں۔ آج چین میں چھپن قومیتیں آباد ہیں جو تمام اپنی شناخت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں جو ایک دوسرے کی روایات کا احترم کرتی ہیں اور چینی کہلانے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔
پاپولس یو فریٹکا آج کے چین کی ترقی اور کامیابیوں کی بھرپو رعکاسی کرنے والی ایک اہم قدرتی علامت ہے۔