پچھلے ہفتے کے دوران ، کچھ مغربی ممالک اور میڈیا نے چینی ویکسین کے بارے میں اپنے رویوں کو تبدیل کیا ہے۔
جرمنی کے وزیر صحت جینز سپن نے کہا ہے کہ یورپی یونین سے منظوری ملنے پر ، جرمنی میں چینی اور روسی ویکسین کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔
ایک ہفتہ قبل ، مغربی میڈیا کی نظر میں صرف امریکی فائزر اور برطانوی آسٹرا زینیکا جیسی مغربی کمپنیوں کی تیار کردہ ویکسین ہی محفوظ تھیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ جان بوجھ کر چینی ویکسین کو بدنام کرتے چلے آ رہے تھے۔
سوال یہ ہےاب مغرب کا رویہ کیوں بدلا ہے؟
اصل میں کچھ مغربی ممالک بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی ویکسین سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور ویکسین کو اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے آلے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم ، وبا کی سنگین صورتحال اور ویکسین کی فوری ضرورت نے انہیں اپنی رنگین عینک اتارنے پر مجبور کردیا ہے۔
اس وقت ، یورپی یونین کے رکن ممالک میں ویکسینیشن کی شرح امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیل کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔ ویکسین کی فراہمی سے متعلق ،یورپ اور امریکہ کے درمیان اب بھی جھگڑا جاری ہے۔ کئی قسم کے دباؤ کے تحت ، یورپی ممالک پریشانی کا شکار ہیں۔اس لئے انہوں نے اپنی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چین کی ویکسین پر نگاہ ڈالی ہے۔
در حقیقت ، جہاں تک ویکسینوں کا تعلق ہے ، اگر وہ محفوظ اور موثر ہیں ، تو اچھی ہیں۔ یہ بھی ایک اہم وجہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سیاستدان ذاتی طور پر بھی چینی ویکسین کے لئے "بولنے "لگے ہیں۔ دنیا دیکھ سکتی ہے کہ چین اپنی ویکسین کو عالمی سطح پر عوامی مصنوعات بنانے کے اپنے وعدے کو پورا کر رہا ہے۔ "نیو یارک ٹائمز" نے اپنے تبصرے میں اس توقع کاا ظہار کیا ہے کہ چین کی ویکسین "ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک لائف لائن" بن سکتی ہے۔
سائنس کو سائنس کی طرف لوٹنے دینا ایک ایسا رویہ ہے جو عالمی انسداد وبا کی جدوجہد کے لئے لازمی ہے، اور یہ ایک اہم تجربہ بھی ہونا چاہئے جو ایک سال سے زیادہ عرصے سے وبا کے خلاف جاری عالمی جنگ سے حاصل ہورہا ہے۔