گیارہ فروری کو چینی قمری سال کی آمد کے موقع پر ، چینی صدر شی جن پھنگ اور امریکی صدر جو بائیڈن نے ٹیلی فون پر بات چیت کرتےہوئے نئے سال کی مبارک باد کا تبادلہ کیا اور دوطرفہ تعلقات اور اہم بین الاقوامی اور علاقائی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔نئی امریکی انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد چین اور امریکہ کے سربراہان مملکت کے درمیان یہ پہلی براہ راست ٹیلیفونک گفتگو ہے۔ دونوں فریقوں کا ماننا ہے کہ "آج کی گفتگو دنیا کو ایک مثبت سگنل بھیجے گی۔" اس سے بیرونی دنیا کو پتہ چلتا ہے کہ چین اور امریکہ کے رہنما باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی سیاسی خواہش ظاہر کر چکے ہیں۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ، جشن بہار چینی قوم کا سب سے اہم تہوار ہے ۔چین اور امریکہ کے سربراہان مملکت کی جشن بہار کے موقع پر بات چیت ،اپنے آپ میں ایک خوش آئند پیغام ہے۔دنیا نے دیکھا ہے کہ جو بائیڈن نے فون کال میں کہا ہے کہ امریکہ اور چین کو تنازعات سے گریز کرنا چاہئے اور تعاون کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ باہمی افہام و تفہیم کو بڑھانے اور غلط فہمیوں سے بچنے کے لئےچین کے ساتھ واضح اور تعمیری بات چیت کرنے پر تیار ہیں۔ اپنی پہلی خارجہ پالیسی تقریر میں ، بائیڈن نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ "امریکہ واپس آیا ہے۔" لوگوں کو امید ہے کہ امریکہ کی " واپسی" کا مطلب ہے کہ امریکہ یکطرفہ پسندی اور تحفظ پسندی کا راستہ ترک کرےگا ، "امریکہ فرسٹ " کے تصور کو چھوڑ دےگا ،اور اپنی ذمہ داریوں کو صحیح معنوں میں سنبھال لےگا اور چین کے ساتھ مل کر دنیا کی خدمت کے لئے کام کرےگا۔چین ہمیشہ ہی امریکہ کے ساتھ پرامن بقائے باہمی اور جیت جیت تعاون کا خواہاں ہے۔ اسی کے ساتھ ہی چین اپنی قومی خود مختاری ، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کا دفاع کرنے کا پختہ عزم بھی رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر شی نے مذکورہ بات چیت میں زور دیا کہ تائیوان ، ہانگ کانگ اور سنکیانگ سے متعلق امور چین کے داخلی امور ہیں ۔ اس سلسلے میں امریکہ کو احتیاط کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔امریکہ کو یہ سمجھنا چاہئے کہ "چین کے بنیادی مفادات کا احترام کرنا" چین اور امریکہ تعلقات کی بہتری کی شرط اور بنیاد ہے۔