چینی حکومت نے 12 فروری کو اعلان کیا کہ چین کے بارے میں بی بی سی ورلڈ نیوز کی رپورٹس نے چین کے متعلقہ انتظامی ضابطوں کی سنگین خلاف ورزی کی ہے ، خبروں کی سچائی اور حقیقت پسندی کے اصول کو توڑ ا ہے ، چین کے قومی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے اور چینی قومی اتحاد کو سبوتاژ کیا ہے۔اس لیے اب چین میں بی بی سی کی نشریات کا اجازت نامہ منسوخ کر دیا گیا ہے ، اور نئے سال میں دو بارہ نشریات کے لیے ان کی درخواست قبول نہیں کی جائے گی۔
یہ اقدام چین نے اپنی قومی خودمختاری اور مفادات کے تحفظ کے لیے کیا ہے اور یہ بالکل جائز ہے ۔یہ خبروں کی سچائی اور وقار کے لیے بھی طاقت ور تحفظ ہے جو معقول اور قانونی ہے۔ چینی مارکیٹ سے نکالے جانے کا ذمہ دار بی بی سی خود ہے۔
ایک مشہور مغربی میڈیا ، جو چین میں کئی سالوں سے موجود ہے ، بی بی سی کو چین کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن مینجمنٹ کے متعلقہ قواعد و ضوابط سے بخوبی واقف رہنا چاہئے یعنی چین کے وقار اور مفادات کو نقصان پہنچانے، اشتعال انگیزی، چینی قومیت کی تقسیم ، نسلی منافرت ، نسلی امتیاز کو ہوا دینے والے اور چینی قومیتوں کے اتحاد کو مجروح کرنے والے پروگراموں کی اجازت نہیں ہوتی۔ تاہم ،بی بی سی ، جو معروضی ، متوازن اور منصفانہ رپورٹنگ کا دعویٰ کرتا ہے ، اس نے سب کچھ اس کے الٹ کرتے ہوئے قانون کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔ خاص طور پر پچھلے چھ مہینوں میں ، اس نے چین پر بے بنیاد حملے کیے جن میں دوہرے معیار ، کمتر انداز اور غلیظ رویہ اپنایا گیا ،صحافتی اصولوں اور انسانی اخلاقیات کی خلاف ورزی کی گئی اور چین مخالف موقف ظاہر کیا گیا۔
ننانوے سال کی تاریخ کے حامل ایک تجربہ کار مغربی میڈیا کی حیثیت سے ، بی بی سی اب بدنام ہوچکا ہے، یہاں تک کہ اسے چین سے باہر نکال دیا گیا ہے جس پر بی بی سی کو سوچنا چاہیے۔ چین قانون کے مطابق چین میں رپورٹنگ کرنے میں مختلف ممالک کے صحافیوں کے لیے معاونت اور سہولت فراہم کرتا ہے ، لیکن چین کے حوالے سے بدنیتی پر مبنی رپورٹنگ اور اور بہتان لگانے والے میڈیا کاکبھی خیر مقدم نہیں کرتا۔
بی بی سی کو خود جائزہ لینا چاہیے ، اس سے سبق سیکھنا چاہیے ، اور چین سے متعلق جعلی خبروں پر چینی عوام سے معافی مانگنی چاہیے۔ اگر یہ چین مخالف قوتوں کا نظریاتی آلہ کار بنتا رہا تو بلاشبہ اس کا مستقبل انتہائی مخدوش اور افسوسناک ہوگا۔