بایڈن انتظامیہ کو برسراقتدار آئے ہوئے ایک ماہ ہو چکا ہے۔ لوگوں نے دیکھا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے کچھ عہدیداروں کی طرف سے چین سے وابستہ معاملات جیسے معیشت اور تجارت ،جنوبی بحیرہ چین اور انسداد وبا کے امور کے سلسلے میں دیئے گئے بیانات میں سابق حکومت کے آثار بہت نمایاں ہیں۔اپنے دور اقتدار کے آغاز میں ، بائیڈن نے انسداد وبا اور معاشی بحالی کو اپنی دو اہم ترجیحات قرار دیا تھا ، لیکن اب ، ان دونوں کاموں کو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس وقت ، امریکہ میں اس وبا سے مرنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے ، اور ابھی بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ کب اس پر قابو پایا جا سکے گا۔ حال ہی میں ، فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاؤل نے بیان دیا تھا کہ امریکی معیشت کے مستقبل میں بہت سے غیر یقینی عناصر موجود ہیں۔اگر یہ کام بروقت مکمل نہیں ہوسکتا تو کیا ہوگا؟ امریکی سیاستدانوں کے لئے ،دوسروں پر "الزام تراشی " ایک آسان طریقہ ہے ، اور بدقسمتی سے چین ایک بار پھر اس صورت حال کا نشانہ بن گیا ہے۔ اس لئے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہےکہ کیوں امریکی صدر کے قومی سلامتی کے امور کے معاون ،جیک سلیون نے حال ہی میں چین کی جانب سے عالمی ادارہ صحت کو وبا کے ماخذ کے حوالے سےپیش کردہ معلومات پر شک و شبے کا اظہار کیا تھا جبکہ ادھر میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں بائیڈن نے کیوں یہ دعویٰ کیا کہ چین کی "معاشی جارحیت اور جبر" کو روک دیا جائے۔لوگوں نے دیکھا ہے کہ حال ہی میں ، چینی عہدیداروں نے امریکہ سے دو طرفہ تعاون کے حوالے سے متعدد تجاویز پیش کی ہیں۔ اس سے چین امریکہ تعلقات کی بہتری کی سمت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ امید ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اپنے پیشرووں کی غلطیوں کو دہرانے اور غلط سمت میں جانے کے بجائے چین کی پرخلوص نیک خواہشات کو سمجھ سکےگی اور دانشمندانہ انتخاب کر سکےگی۔واضح رہے کہ چین کبھی امریکیوں کا دشمن نہیں رہا، بلکہ یہ امریکی سیاستدانوں کے دلوں میں "چھپے شیطانی وسوسے" ہیں جو انہیں گمراہ کرتے ہیں۔