ہارورڈ یونیورسٹی کے سینٹر فار ڈیموکریٹک گورننس اینڈ انوویشن کے محققین نے پچھلے سال جولائی میں چین سے متعلق ۱۳ سال پر محیط ایک سروے کے تاریخی نتا ئج جاری کیے۔ اس تحقیقی مطالعے کا عنوان تھا" لمبے عرصے پر محیط چینی عوام کی را ئے کی روشنی میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی پا ئیداری اور لچک کو سمجھنا" ۔ اس سروے میں سرکاری پالیسیوں کے عوام پر اثرات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس مطالعے کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ تھی کہ یہ چین سے باہر ایک ادارے نے منعقد کیا ۔ اس تحقیقی مطالعے کا دورانیہ ۲۰۰۳ سے ۲۰۱۶ پر محیط تھا۔ تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ ۲۰۰۳ سے ۲۰۱۶ تک چینی حکومت کے حوالے سے چینی عوام کے اطمینان میں مسلسل اضافہ ہوتارہا ۔ ۲۰۱۶ میں حکومت کے حوالےسے عوام کے اطمینان کی شرح ۹۳ فیصد سے زیادہ رہی جس میں ۲۰۰۳ کے مقابلے میں سات فیصد اضافہ ہوا۔ یہ اطمینان ہر سطح یعنی مرکزی حکومت سے لے کر مقامی اور صوبائی حکومتوں تک سب کے بارے میں پایا گیا۔ اس رپورٹ کی ایک اور دلچسپ بات یہ تھی کہ ملک کے دوردراز اور نسبتا پسماندہ علاقوں کے شہریوں کے اطمینان کا درجہ نسبتا خوشحال علاقوں کے شہریوں سے زیادہ تھا۔
یہ صرف ایک تحقیق کے اعداد و شمار نہیں ایسے درجنوں تحقیقی مطالعے اسی حقیقت کی نشاندھی کرتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ چینی شہریوں کا اپنی حکومت پر اعتماد بڑھا ہے اور اس کی بڑی وجہ حکومت کی عوام کی خدمت کو اولین ترجیح دیناہے۔
حالیہ دنوں چین کے دو سالانہ اجلاس یعنی چین کی قومی عوامی کانگریس اور چین کی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کے اجلاس بیجنگ میں منعقد ہوئے جس میں ملک بھر سے سی پی پی سی سی کے مندوبین اور چین کی قومی عوامی کانگریس کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ انہوں نے عوام کے نمائندوں کی حیثیت سے اگلے سال اور عوام کے بہتر مستقبل کیلئے تجاویز پیش کیں ۔ ان تجاویز کا تعلق عوام کی فلاح وبہبود سے ہوتاہے ۔ چین کے دو اجلاس باقاعدگی سے ہر سال منعقد ہوتے ہیں جن میں عوام کی بہتر فلاح وبہبود ، صحت ، تعلیم ، روز گار، حقوق کے تحفظ، سہولیات کی فراہمی ، اور عوامی زندگی سے متعلق دیگر امور سے متعلق اہم فیصلے ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد پورا سال ان فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے سرکاری ادارے اور مختلف سطح کی حکومتیں اپنی توانا ئیاں اور صلاحیتیں صرف کرتے ہیں ۔ اگلے سال دو اجلاسوں میں ایک مرتبہ پھر پچھلے سال کی کارکردگی اور اہداف کے حصول کا جائزہ لیا جاتاہے ۔ عموما چین میں اہداف کو مقررہ وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کا رواج ہے۔ اسی وجہ سے ہم چین میں ترقی کے عمل کا تسلسل دیکھ رہے ہیں۔ ان دو اجلاسوں میں صرف ایک سال کیلئے منصوبہ بندی نہیں ہوتی بلکہ طویل مدتی منصوبہ بندی بھی کی جاتی ہے ۔ اس سال چودہویں پنچ سالہ منصوبے کی منظوری دی گئی ہے اس کے علاوہ ۲۰۳۵ طویل مدتی اہداف بھی پیش کیے گیے ہیں۔ چین کے دو صد سالہ اہداف میں سے ایک کی مدت اس سال تکمیل کو پہنچ جائیگی ۔ ان اہداف کاتعین چینی کمیونسٹ پارٹی کی ۱۹۲۱ میں بنیاد رکھنے کے ۱۰۰ سال مکمل ہونے کے حساب سے ۲۰۲۱ تک کیا گیاتھا۔ اسی طرح دوسرے صد سالہ اہداف جدید چین یعنی عوامی جمہوریہ چین کے ۱۹۴۹ میں قیام سے ۲۰۴۹ میں سو سال مکمل ہونے تک رکھے گئے ہیں۔ پہلے سوسالہ اہداف میں ابتدائی خوشحال معاشرے کا قیام تھا جو اس سال پورا کرلیاگیاہے۔
اس سال کے اجلاسوں کے دوران بھی حسب روایت چینی صدر شی جن پھنگ نے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے اجلاسوں میں شریک وفود سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں صدر شی جن پھنگ نے عوام کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں سے متعلق پوچھا۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ صدر شی جن پھنگ عوام کی کتنی فکر کرتے ہیں۔ صدر شی جن پھنگ ہمیشہ تاکید کرتے ہیں کہ ترقی کے عمل میں کسی کو پیچھے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے اپنے ملک سے ۲۰۲۰ میں انتہائی غربت کا مکمل خاتمہ کردیاہے ۔اس وقت ایک اعشاریہ چار بلین آبادی والے ملک میں دنیا کا بہترین سوشل سیکورٹی سسٹم موجود ہے ، جس کے تحت 1.3 بلین سے زیادہ افراد کو بنیادی طبی انشورنس حاصل ہے اور تقریباً ایک بلین افراد کو بنیادی پنشن انشورنس کی سہولت میسر ہے۔
عوام کی خدمت وہ نکتہ ہے جس نے چینی حکومت کو چینی عوام کا ہردلعزیز بنایا ہے ، کاش یہ نکتہ دوسرے ممالک کو بھی سمجھ آئے۔ اور اپنے عوام کی خدمت کو اپنی حکومت کی اولین ترجیج بنائے۔