حال ہی میں ، ایک چینی نیٹیزین نے اپنی ایک پوست میں امریکہ پر طنز کیا ہے ، جس پر لوگوں نے پُرجوش ردعمل کا اظہار کیا ہے اور وسیع پیمانے پر شیئر بھی کیا ہے۔ اس نیٹیزین نے امریکی لہجے میں کہا ہے ہم نے افغانستان میں مسلمانوں کو ماراہے ، شام میں مسلمانوں کو ماراہے ، عراق میں مسلمانوں کو ماراہے ، ہمیں واقعی سنکیانگ کے مسلمانوں کے انسانی حقوق کی فکر ہے۔
یہ صورتحال واقعی مضحکہ خیز ہے۔ بے شک ، یہ ایک نیٹیزین کا طنز ہے ، لیکن جب میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو ، یہ ایک انتہائی ظالمانہ اور خونی حقیقت کا مظہر اور عکاس بن کر میرے سامنے ابھر تا ہے۔ پوری دنیا نے دیکھا ہے کہ گزشتہ کئی دہائِیوں کے دوران امریکہ نے کتنے مسلم ممالک میں جنگیں چھیڑ ی ہیں ، کتنے مسلما نوں کو ہلا ک کیا ہے ، کتنے مسلمانوں کو شدید مصائب میں متبلا کیا ہے ، کتنے مسلم بچوں کو ہلاک کیا ہے اور کتنے مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی کی ہے اور ان کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا ہے ۔کسی نے نہیں دیکھا ہے کہ امریکہ نے ان ممالک کے مسلمانوں کی جانوں اور انسانی حقوق کا خیال رکھاہو ۔
ان دنوں ، امریکہ اور اس کے بعض مغربی اتحادیوں نے چین کے سنکیانگ کے معاملات کو بہانہ بناکر غیر منطقی ، بے بنیاد معلومات اور جھوٹ کے ذریعے چین کے داخلی امور میں مداخلت اور غیر معقول الزامات کا آغاز کیا ہے۔چین مخالف قوتوں کے فراہم کردہ جھوٹ اور جعلی معلومات پر مبنی کچھ نام نہاد شواہد کی بنیاد پر ، یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ چینی حکومت سنکیانگ میں مسلمانوں کو کام کرنے پر مجبور کرتی ہے ، اور ان کی "نسل کشی" کر رہی ہےوغیرہ وغیرہ۔ اگر چہ جھوٹ پر مبنی ان الزامات کی حمایت میں کوئی شواہد اور ثبوت پیش نہیں کیے گئے ہیں ، اور چینی حکومت ، سنکیانگ کے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اور عام لوگوں نے فوری طور پر ان بے بنیاد الزامات پر کڑی تنقید اور تردید کی ہے۔ لیکن جب جھوٹ کو بار بار دہرایا جا تاہے ،تو لوگ ان پر یقین کرنے لگتے ہیں ۔ کسی شخص کو برباد کرنے کیلئے ، بعض اوقات ایک جھوٹ بھی کافی ہوتا ہے ۔ در حقیقت ، لوگ سنسنی خیز کہانیوں اور جھوٹ پر زیادہ آسانی سے یقین کرتے ہیں ، اور حقائق کی تلاش میں وقت اور توانائی صرف کرنا پسند نہیں کرتے۔یہ انسانی فطرت ہے ۔ جیسے آن لائن تشدد اور زبانی اذیت۔ کسی پر الزام لگانے کیلئے محض چند سیکنڈز درکار ہوتے ہیں ،تاہم اس سے پہنچنے والی خفت اور اذیت کو مٹانے میں دن ، مہینے ، سال حتی کہ بعض اوقات پوری زندگی لگ جاتی ہے ۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے تشکیل کردہ بالادستی ، غنڈہ گردی کے عالمی نظام میں ، تشدد اور جھوٹ جیسے شیطانی ہتھیاروں کے سوا کچھ نہیں ہے۔
سنکیانگ میں چینی حکومت ، سول تنظیموں اور عام مسلمانوں نے امریکہ اور مغربی ممالک کے ان جھوٹوں اور الزامات کی تردید اور بےنقاب کرنے کے لئے مختلف چینلز کے ذریعہ بہت سے حقائق استعمال کیے ہیں ،دوسری طرف دنیا کے بہت سے انصاف پسند ممالک نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس اور دیگر کثیرالجہتی پلیٹ فورمز پر چینی حکومت کے مؤقف کی حمایت کی ہے ، لیکن مجھے اب بھی محسوس ہوتا ہے کہ چینی نیٹیزین کا مزکورہ طنز آمیز اظہار واقعی ایک ہی جملے میں امریکہ کی جھوٹوں کی اصلیت کو لوگوں کے سامنے لا چکا ہے اور امریکہ کے سارے جھوٹوں کو بے نقاب کر چکا ہے ۔
اس جملے نے در حقیقت میری بہت سی یادوں کو تازہ کیا ہے ۔اردو زبان سیکھنے والے ایک چینی طالب علم کے طور پر ، میں بہت پہلے پاکستان پڑھنے گیا تھا ۔ اس دوران میری پاکستان کے مقامی لوگوں کے ساتھ گہری دوستی ہوگئی ، جو آج بھی قائم ہے لہذا ، میں مسلمانوں سے بہت اچھی طرح واقف ہوں۔ میرے بہت سے مسلمان دوست ہیں۔ میرے پیشہ وارانہ کام کی نوعیت کی وجہ سے ایک طویل عرصے سے ، میں نے مسلمانوں کے امور اور اسلامی دنیا کی معاشرتی اور معاشی ترقی اور اس سے متعلقہ خبروں پر بھر پور توجہ دی ہے۔ امریکہ کی زیرقیادت مغربی طاقتوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مختلف مظالم پر مجھے ہمیشہ تشویش رہی ہے ۔
مذکورہ بالا نیٹیزین کے الفاظ نے مجھے 2001 کے گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ کی طرف سے شروع کی جانے والی افغان جنگ کی یاد دلادی ہے۔اس جنگ کے بعد سے افغان عوام شدید پریشانیوں اور مصیبتوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ تب سے ، افغانستان کے ہمسایہ ملک پاکستان میں ، کتنے ہی عام شہری اور کتنے مسلمان مارے جاچکے ہیں ، امریکہ کی قیادت میں مغربی اتحادی فوج کی نام نہاد غلط بمباری میں کتنے معصوم شہری مارے گئے ہیں؟ اس کے علاوہ امریکہ کی چھیڑی ہوئی عراق ، شام اور لیبیا کی جنگیں بہت بڑی انسانی تباہ کاریوں کا باعث بنی ہیں اور لاتعداد مسلمانوں کی جانیں لے چکی ہیں۔تاہم اب تک کس نے ان کی جنگی جرائم کی تفتیش کی ہے؟ کیا انہوں نے دوسروں کو تفتیش کی اجازت دی ہے؟
امریکی اور مغربی طاقتوں کے مظالم کے حوالے سے بہت ساری تصاویر ہیں جو میرے ذہن میں ٹہل رہیں۔عراقی جنگ کے دوران امریکہ نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحہ رکھنے کے بہانے عراق کی جائز حکومت کا تختہ الٹ دیا اور عراق کے قومی رہنما کو پھانسی دی ۔اس وقت سے ، عراق ایک لامتناہی خانہ جنگی کی زد میں آچکا ہے ، جس میں امریکہ نے لاتعداد بے گناہ شہریوں اور مسلمانوں کو ہلاک کیا ہے۔ وہاں انسانی حقوق کی صورتحال ابتر ہوتی جارہی ہے ۔ پھر ایک دن امریکی حکومت نے اعتراف کیا کہ سابق عراقی حکومت کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کی موجود گی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے ۔ کیا اتنے بڑے انسانی المیہ کے لیے یہ ایک جملہ کافی تھا؟ امریکہ نے یہ بھی نہیں کہا کہ امریکہ ان ہلاکتوں پر شرمندہ ہے۔ نہ تو کسی امریکی نے جنگ کی وجہ سے ہونے والی انسانی تباہ کاریوں کی ذمہ داری قبول کی اور نہ ہی اس بارے میں کوئی تحقیقات کی گئیں۔باالفاظ دیگر ،اس جنگ کو چھیڑنے کیلئے کوئی وجہ نہیں تھی کوئی بہانہ نہیں تھا۔ اس بے وجہ جنگ میں بہت سارے لوگ بغیر کسی وجہ کے مارے گئے ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ ہمارا کم از کم اتنا پوچھنا تو بنتاہے کہ امریکیوں نے کب مسلمانوں کی جانوں کا خیال رکھاہے ؟کب ان کے انسانی حقوق کی پرواہ کی ہے؟
در حقیقت ، ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ کیا امریکہ نے شامی مسلمانوں کی جانوں اور انسانی حقوق کی پرواہ کی ہے؟ کیا امریکہ فلسطینی مسلمانوں کی جانوں اور انسانی حقوق کی پرواہ کرتا ہے؟ پھر اچانک امریکہ کو سنکیانگ کے مسلمانوں کے انسانی حقوق کی فکر کیوں ہونے لگی ہے؟
منافقانہ اخلاقی اونچی زمین پر کھڑے ہو کر ،اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ، خود مختار ملکوں پر باپندیاں عائد کرنا ، ان ملکوں کی حکومتوں کا تختہ الٹنا اور بڑے پیمانے پر جنگ شروع کرکے انسانی تباہی پھیلانا امریکہ کا معمول ہے۔ کیا ان کی ان وحشیانہ کاروائیوں کو اقوام متحدہ کی منظوری حاصل ہوتی ہے؟ کیا ان کا غیرقانونی اور وحشیانہ سلوک مسلمانوں اور انسانی حقوق کے لئے احترام ہے؟ انہوں نے کب عالمی برادری کو اپنے مظالم کی تحقیقات کی اجازت دی ہے؟
آخر میں ، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حقیقت میں امریکہ کی نظر میں یہ دنیا طاقت کی جگہ ہے جہاں جنگل کا قانون چلتاہے۔ امریکہ خود کو جنگل کا بادشاہ سمجھتا ہے اور غنڈہ گردی کی سیاست کرتا ہے۔ یہ تصور ان کی جڑ وں میں ہے۔صرف ایک ہی صورت ہے اس غاصب طاقت سے جان چھڑانے کا کہ بین الاقوامی برادری اس نکتے کو واضح طور پر دیکھے ، سمجھے ، اور متحد ہو کر اس غاصب طاقت کی مخالفت کرے ، تب ہی اس دنیا کا مستقبل محفوظ ہوسکتا ہے ، اور تب ہی ہمارے انسانی حقوق اورانسان دوست نصب العین کا مستقبل حقیقی طور پر روشن ہوسکتا ہے۔