افغانستان میں 20 سالہ جنگ، امریکہ کی مداخلت کی پالیسی کی زندہ مثال ہے، سی آر آئی کا تبصرہ

2021-04-27 19:50:45
شیئر:

افغانستان میں 20 سالہ جنگ، امریکہ کی مداخلت کی پالیسی کی زندہ مثال ہے، سی آر آئی کا تبصرہ_fororder_10

افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان میں متعدد مقامات سے فوج واپس بلانا شروع کردی ہے۔ منصوبے کے مطابق 11 ستمبر سے قبل انخلاء مکمل کرلیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک تباہ حال افغانستان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 20 سالہ جنگ کا اختتام ہو رہا ہے۔
بیس سال پہلے امریکہ نے انسداد دہشت گردی کے بہانے افغانستان میں جنگ کا آغاز کیا تھا۔ اس جنگ میں انسانیت سوز تباہی پھیلائی گئی۔ امریکی بوسٹن یونیورسٹی کے اعدادوشمار کے مطابق2001 کے بعد سے اب تک افغان جنگ میں مجموعی طور پر 241000 لوگ ہلاک ہوئے ہیں، جن میں 71000 سے زائد عام شہری شامل ہیں۔
ان 20 سالوں میں امریکہ نے 2 ٹریلین ڈالر سے زائد خرچ کیے ہیں اور 2400 سے زیادہ امریکی فوجی جاں بحق ہوئے ہیں۔ اس دوران امریکہ نہ صرف طالبان کو شکست دینے کے اپنے مقصد میں ناکام رہا، بلکہ اس کے برعکس طالبان زیادہ طاقتور ہو رہے ہیں. امریکی بروکنگز انسٹی ٹیوشن نے حال ہی میں نشاندہی کی ہے کہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد، افغانستان میں جاری خانہ جنگی ایک خون ریز اور طویل جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ ایشیاء پیسیفک فاؤنڈیشن سے وابستہ ساجن کوہیل نے مزید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان ایک بار پھر انتہا پسندی کا مرکز بن سکتا ہے۔
افغان جنگ صرف امریکہ کی مداخلت کی پالیسی کا مظہر ہے۔ عراق، شام، لیبیا وغیرہ سمیت ہر وہ ملک جس کو امریکی مسلح افواج کی مداخلت کا نشانہ بنایا گیا ہے، وہ سب سیاسی انتشار، عدم استحکام، اور معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ دنیا اس سے دیکھ سکتی ہے کہ امریکہ نے حقیقت میں "جمہوریت" کے نام پر مداخلت کی ہے اور "انسانی حقوق" کے بہانے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ امریکہ عالمی استحکام کو متاثر کرنے والی سب سے بڑی قوت بن چکا ہے۔