جاپان کی وزارت خارجہ نے 27 تاریخ کو "بلیو بک آف ڈپلومیسی" کا 2021 ورژن جاری کیا ۔اس دستاویز میں ایک طرف چین اور جاپان کے مابین جزائر کے تنازعات ، بحیرہ جنوبی چین ، ہانگ کانگ ، سنکیانگ اور دیگر امور کا ذکر کرتے ہوئے نام نہاد" چین سے خطرے " کی بات کی گئی ہے تو دوسری طرف چین اور جاپان کے تعلقات کو معاشی طور پر " سب سے اہم باہمی تعلقات" قرار دیا گیا۔ سیاسی اور معاشی تعلقات کی یہ الگ الگ تعریفجاپان کی چین پالیسی میں موجود بڑے تضادات کو نمایاں کرتی ہے۔در حقیقت ، آبنائے تائیوان کی صورتحال پر یوشی ہیڈے سوگا کے غیر سنجیدہ بیانات نے چین-جاپان تعلقات کی سرخ لکیر کو عبور کیا ہے۔ جاپان کے سفارتی مؤقف میں یہ تبدیلی نہ صرف امریکہ اور جاپان اتحاد کی وجہ سے ہے ، بلکہ یوشی ہیڈے سوگا کی کابینہ کی پچھلی سال ستمبر میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے جاری ناقص کارکردگی کی وجہ سے بھی ہے۔ یوشی ہیڈے سوگا اپنی ناکامیوں کو چین مخالف بیانیے کے پیچھے چھپانا چاہتے ہیں تاکہ دوبارہ انتخابات کے موقع عوامی غصے سے بچ سکیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ جاپان اب بھی اقتصادی طور پر چینی مارکیٹ پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔جب جاپان نام نہاد "چین سے خطرے " پر روشنی ڈال رہا ہے تو لامحالہ ، چین کے ساتھ اس کی تجارت اور سرمایہ کاری بہت زیادہ متاثر ہوگی۔ آج کے جاپان کو سفارت کاری کی اپنی راہ سے بھٹکنے کی بجائے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔