یہ اکتوبر سن 1937 کی بات ہے جب امریکی صحافی ایڈگر سنو نے دنیا کو اپنی کتاب کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا سے متعارف کروایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کتاب کی ایک لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہوگئیں۔ یہ وہ پہلی کوشش تھی جس نے دنیا کو کمیونسٹ چین سے متعارف کروایا۔کتاب کے مندرجات کے مطابق1930 کی دہائی میں چین جاپانی جارحیت کا نشانہ بنا۔ اس کا مقابلہ چینی لوگوں نے مل کر کیا۔اس کے بعد کومن تانگ پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کے درمیان تعاون کا خاتمہ ہو گیا۔ اکتوبر 1935 میں سنٹرل ریڈ آرمی لانگ کرتے ہوئے شانسی پہنچی جبکہ کومن تانگ پارٹی سی پی سی کی سخت مخالفت میں مصروف رہی۔ دنیا سی پی سی کے بارے میں بہت کم جانتی تھی اور جتنا جانتی تھی وہ بھی کومن تانگ کے پراپیگنڈے کے زیر اثر تھا۔ایڈگر سنو نے کی صحافیانہ حس یہ جاننے کے لئے بیتاب تھی کہ کمیونسٹ انقلابی کون ہیں؟ سی پی سی اور ریڈ آرمی کیا ہے؟ یہ اپنے نظریے کے لئے کیوں مر مٹنے کو تیار ہیں؟ ان سوالوں کے جوابات تلاش کرنے وہ صوبہ شان بے کے گاؤں باؤ آن پہنچے جہاں سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کا دفتر قائم تھا۔ انہوں نے وہاں چئیر مین ماؤزے تنگ سے ملاقات کی اورپارٹی کے قیام کے اغراض و مقاصد سے آگہی حاصل کی۔ تمام رات وہ موم بتی کی روشنی میں ماؤزے تنگ سے محو گفتگو رہے۔ وہ چئیرمین ماؤزے تنگ کی فہم وفراست اور ان کی کرشماتی شخصیت سے بہت متاثر ہوئے۔ بعد ازاں انٹرویوز اور تحریروں میں انہوں نے چئیرمین ماؤزے تنگ کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کو اپنی زندگی کا قیمتی ترین اثاثہ قرار دیا۔ چواین لائی نے انٹرویوز لینے میں سنو کی بہت زیادہ مدد کی۔ چو این لائی کی جانب سے بہترین منصوبہ بندی کی وجہ سے سنو کے لئے ممکن ہوا کہ وہ ریڈ آرمی کے سینکڑوں جوانوں اور افسران کے خیالات جان سکیں۔سنو نے کہا وہ حیران تھے کہ ریڈ آرمی کے اکثریتی ارکان مزدور اور کسان تھے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ریڈ آرمی ان کے حقوق کی جد وجہد کر رہی ہے۔سنو نے ان انقلابیوں کے ساتھ 100 دن گزارے ۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو محب وطن، مخلص اور اخلاقی طور پر نہایت مضبوط پایا۔ یہ لوگ نہایت نظم و ضبط اور جیت کے یقین کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔یہ فوج جہاں بھی جاتی لوگ اسے اپنی آنکھوں پر بٹھاتے، اسے اپنی فوج قرار دیتے۔ بیداری کی ایسی لہر اٹھی کہ اس دوران چین سے افیون، جہالت، غلامی اور گداگری کا مکمل طور خاتمہ ہونے لگا۔ یہ فوج جن مسلم علاقوں میں ٹھہرتی مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر مساجد کی صفائی ستھرائی کرتی، محبت اور رواداری کا دور دورا تھا۔سنو سمجھتے ہیں کہ یہ کمیونسٹ انقلابیوں کی صاف نیت اور سچے جذبات تھے کہ کامیابیاں ان کے قدم چومتی رہیں۔