یکم جون کو 74 ویں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کا اختتام ہوا۔ کانفرنس کے دوران کچھ امریکی سیاستدانوں نے ایک بار پھر نوول کورونا وائرس کے ماخذ کے معاملے پر شور مچایا اور مطالبہ کیا کہ چین بین الاقوامی تحقیقات میں تعاون کرے۔ یوں چین پر دوبارہ گند ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ فی الحال ڈبلیو ایچ او کی سربراہی میں ماہر ین کا گروپ چین میں اپنی تحقیقات کا حصہ مکمل کر چکا ہے۔ کھلی ، شفاف اور مکمل تحقیق کے بعد، ڈبلیو ایچ او اور چین کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے رواں سال مارچ کے آخر میں ایک رپورٹ جاری کی ، جس میں کہا گیا ہے کہ نوول کورونا وائرس کا لیبارٹریوں کے ذریعے انسان تک پہنچنا "تقریبا ناممکن" ہے۔چین اس وائرس سے متعلق تحقیقات کے نتائج کا احترام کرتا ہے۔ تاہم اگر امریکہ چین کو بدنام کرنے کی اپنی روش سے باز نہیں آتا۔ تو کیا یہ ضروری نہیں کہ امریکہ پہلے اپنے ہاں اس وبا سے متعلق شکوک و شبہات کو دور کرے اور عالمی برادری کی جانب سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کو قبول کرے ۔ سب سے پہلے تو امریکہ لیبارٹریوں کو بین الاقوامی تحقیقات کے لئے کھولے۔ امریکہ نے پوری دنیا میں 200 سے زیادہ حیاتیاتی لیبارٹریوں کو چھپا کر رکھا ہے ، اور ان کے افعال ، استعمال اور حفاظتی عوامل کے بارے میں معلومات دینے سے سختی سے گریز کرتاہے۔ اس کے علاوہ ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ امریکہ میں "زیروکیس " کب پیش آیا تھا۔ گزشتہ سترہ مہینوں سے جاری وبا سے دنیا کوبدستور خطرات لاحق ہیں ۔ اس لیے امریکہ کے کچھ لوگوں کیلئے مشورہ ہے کہ "الزام تراشی کے کھیل" کو فوری طور پر بند کریں،ر ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کو چین کی طرح وائرس کی سراغ رسانی کیلئے تحقیق کی دعوت د یں اور اس وبا کے خلاف عالمی جنگ میں اپنا حصہ ڈالیں۔