حال ہی میں متعدد امریکی سیاستدانوں نے کورونا وائرس کے ماخذ کے بہانے چین پر دوبارہ ڈباو ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ یہاں تک کہ اپنے جاسوسی اداے کو اس کی تحقیقات کے احکامات دیے ہیں ۔ پوری دنیااس عمل کی مذمت کررہی ہے۔ ویسے کوئی بھی عام شخص یہ جانتا ہے کہ وائرس کے سراغ لگانے میں صرف سائنس دانوں سے ہی مدد مانگی جاسکتی ہے ، کسی خفیہ ادارے سے نہیں۔امریکی سیاست دانوں نے وبا کے خلاف غیر موثر اقدامات کی ذمہ داری چین پر ڈالنے کیلئے جو منصوبہ بنایا ہے ، وہ خالصتا ایک سیاسی تماشہ ہے جو سائنس کے مروجہ اصولوں کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔در حقیقت ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری وبا کے بعد ، امریکی سیاستدانوں کے ذاتی مفاد کو ترجیح دینےاور سائنس کے مروجہ اصولوں کو نظر انداز کرنے سے امریکی عوام کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ چھ لاکھ کے قریب امریکیوں کی موت نے بھی امریکی سیاستدانوں کے اخلاق اور ضمیر کو بیدار نہیں کیا۔ انہوں نے اس سےنہ صرف سبق نہیں سیکھا بلکہ ایک بار پھر وائرس کے سراغ لگانے کو سیاسی رنگ دینا شروع کیا اور سائنس مخالف راستہ اپنایا ہے ۔ بلا شبہ اس طریقے سے پوری دنیا کے لوگوں کو زیادہ خطرے میں ڈالا گیا ہے ۔وائرس کا سراغ لگانے کیلئے سائنسی اور مستند تحقیق کو یقینی بنانے کے لیے عالمی برادری کو ڈبلیو ایچ او کی رہنمائی میں سائنسدانوں کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ پیشہ ورانہ انداز میں بغیر کسی مداخلت کے ، اپنے کام کو انجام دے سکیں ۔ اسی کے ساتھ ہی چونکہ دنیا کے مختلف حصوں میں کووڈ-۱۹ کے ابتدائی کیسز دریافت ہوئے تھے، اس لیے مساوی سلوک کے اصول کے تحت وائرس کے سراغ لگانے کی تحقیقات ان ممالک اور علاقوں میں بھی کی جانی چاہیئے ۔ وائرس کے ماخذ کی تلاش ایک سائنسی مسئلہ ہے ، یہ "الزام تراشی کا کھیل" نہیں ہے ، اور نہ ہی یہ بعض امریکی سیاستدانوں کی خود غرضانہ خواہشات کو پورا کرنے کا آلہ ہے ۔