حال ہی میں ، امریکی صدر کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر چین نوول کورونا وائرس کے ماخذ کی مزیدتحقیقات نہیں کرتا ہے تو ، اسے "بین الاقوامی تنہائی" کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری جین ساکی نے دھمکی دی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحاد ی چین پر ضروری دباؤ ڈالنے کے لئے مل کر کام کریں گے۔
وائرس کے ماخذ کی نشاندہی کے معاملے پر ، امریکی سیاستدان چین کو بلیک میل کرنے اور مجبور کرنے کے اہل نہیں ہیں ، اور نہ ہی انہیں عالمی برادری کی حمایت حاصل ہے۔
امریکہ میں جاری مختلف تحقیقات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ پہلے تصدیق شدہ کیس کے سامنے آنے سے کئی ہفتے قبل ہی امریکہ میں نوول کورونا وائرس موجود تھا۔ گزشتہ سال کے پہلے تین مہینوں میں جمع ہوئے 24000 سے زائد امریکیوں کے خون کے نمونوں کی تحقیقات کے دوران بھی یہ بات سامنے آئی تھی۔ فرانسیسی سائنس دانوں کے تحقیقی نتائج سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نوول کورونا وائرس نومبر 2019 میں یورپ میں نمودار ہوا تھا۔لہذا اس معاملے پر ، عالمی تعاون کے ذریعہ متعدد مقامات پر وائرس کی نشاندہی کی تحقیق کی جانی چاہئے۔
چین نے عالمی ادارہ صحت کو دو بار چین آنے کی دعوت دی ہے ، لیکن امریکہ نے ابھی تک عالمی ادارہ صحت کے لئے اپنے دروازے نہیں کھولے ، اور یہاں تک کہ دنیا سے "چین کو الگ تھلگ کرنے" کی دھمکی بھی دی ہے ۔یہ کتنا مضحکہ خیز ہے؟ !
یقیناً سلیوان اور دیگر کو ان سوالات کے جوابات دینے کی ضرورت ہے۔
دنیا میں سب سے ترقی یافتہ طبی وسائل اور ٹیکنالوجی کے حامل ملک کی حیثیت ہونے کے باجود امریکہ میں اب تک 33.54 ملین کیسز اور600،000 ہلاکتیں کیسے ہوئیں؟ اس وبا سے لڑنے میں امریکہ کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ امریکہ کو اس حوالے سے مکمل تحقیات کرنی چاہییں اور ذمہ دار امریکی عہدیداروں سے سوال کرنا چاہیے جو نوول کورونا وائرس وبا کے خلاف جنگ میں اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ چین نے حال ہی میں امریکہ میں وبا کے ماخذ، وبا کے خلاف غیر مؤثر حکمت عملی کی وجوہات و ذمہ داران کے تعین اور فورٹ ڈیٹرک سمیت بیرون ملک موجود 200 سے زائد حیاتیاتی لیبارٹریوں کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔