امریکی مصنف مارک ٹوین کا یہ کہنا تھا ، " تاریخ صرف خود کو دہراتی نہیں ، بلکہ یہ ردیف پر چلتی ہے"۔
مشہور قدیم یونانی مفکر تھوکیڈائڈس کا ماننا ہے کہ ایک نئی ابھرتی ہوئی طاقت موجودہ غاصب کو چیلنج کرےگی۔ آخر الذکر اس خطرے کو ختم کرنے کی کوشش کرےگا اور جنگ ناگزیر ہوجائے گی۔ اس نظریے کو "تھکسیڈائیڈز کے جال" کے طور پر جانا جاتا ہے۔
کیا واقعی ایسا ہے؟ موجودہ دور کے چین-امریکہ تعلقات پر گہری نگاہ ڈالنے سے ایسا ہی لگتا ہے۔ امریکی حکومت نے چین سے رابطے کی اپنی حکمت عملی کے مکمل خاتمے کا اعلان کیا اور مغربی اتحادیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ چین کی دھمکیوں کا بھرپور جواب دیں۔ چین کو ہدف بنانے والے "اسٹریٹجک کمپیٹیشن ایکٹ 2020" سے لے کر، "اینڈلیس فرنٹیئر ایکٹ" تک جس کا مقصد سائنس اور ٹیکنالوجی میں امریکہ کی نمایاں پوزیشن کو مستحکم کرنا اور چین کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی پیشرفت کو روکنا ہے ،پھر جی 7 سمٹ میں چین کے خلاف پرزور الفاظ میں اعلامیہ تک ، تقریباً پوری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ چین امریکہ تعلقات مکمل طور پر مسابقتی دور میں داخل ہوگئے ہیں۔ تاہم ، بین الاقوامی برادری اور اکیڈمیہ کی صاحب بصیرت شخصیات ہمیشہ سے عقلی آواز بلند کر رہی ہیں ، ان کا خیال ہے کہ چین کے بارے میں امریکی پالیسی شدید غلط فہمی کا شکار ہے ، انہوں نے دونوں ملکوں سے باہمی افہام و تفہیم کو مستحکم کرنے اور منطقی نظر سے ایک دوسرے کو دیکھنے کی اپیل کی ہے۔
ہاں ، ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے ، حکومت کی سطح سے لے کر عام لوگوں کی سطح تک کے تبادلے اور باہمی مفاہمت بہت ضروری ہے۔ اگر دنیا کی دو سپر طاقتوں میں باہمی تفہیم کی بنیادی کمی واقع ہوتی ہےتو ، اس کا نتیجہ تباہ کن ہونے کا امکان ہے۔
میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ غیر سرکاری سطح پر ، چینی اور امریکی عوام کے مابین باہمی افہام و تفہیم میں ایک سنجیدہ عدم توازن موجود ہے۔ چین کے بارے میں امریکی عوام کی سمجھ امریکہ کے بارے میں چینی عوام کی سمجھ سے کافی کم ہے۔ چین میں ہر نوجوان نے سینکڑوں امریکی فلمیں دیکھی ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ 27 میٹر لمبے "مئی فلاور" پر دستخط شدہ کنونشن نے گزشتہ 200 سالوں میں امریکہ کو دنیا کا سب سے طاقتور ملک بنایا۔ ہم جانتے ہیں کہ پتنگ کی مدد سے بجلی تیار کرنے کے تجربے کے دوران بینجمن فرینکلن بجلی کی زد میں آنے سے بال بال بچ گئے تھے۔چین میں ہر ایک ادبی ذوق اور فنکارانہ صلاحیتیں رکھنے والا نوجوان باب ڈلن کی "بلوینگ ان دی وینڈ" دھرا سکتا ہے۔ اگر کسی کو ویران جزیرے پر چھوڑا جائے اور اسے صرف ایک کتاب ساتھ لانے کی اجازت ہو تو ،حیران کن طور پر ادبی ذوق اور فنکارانہ صلاحیتیں رکھنے والا نوجوانوں کا انتخاب امریکی مصنف ڈیوڈ سلینگر کا "دی واچر ان دی رائی" ہوگا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ انجلینا جولی نے واقعی جینیاتی ٹیسٹ کے نتائج کو قبول کر کے اپنے سینوں کو کٹوا دیا۔ ہم جانتے ہیں کہ ٹی وی سیریز فرینڈز کی شوٹنگ کے دوران جینیفر اینسٹن اور ڈیوڈ شویمر کے درمیان واقعی ایک بے نتیجہ عشق تھا۔۔. بس بس ، یہ فہرست خاصی طویل ہے ، لیکن آئیے ایک امریکی بچے یا ایک امریکی عہدیدار سے پوچھیں ، آپ کو چین کے بارے میں کیا معلوم ، سوائے دیوار چین ، کنگ فو ،اور بروس لی کے ، بتائیں!
"مقابلہ محاذ آرائی کے مترادف نہیں ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اگر ہم محاذ آرائی کی راہ پر گامزن ہوجائیں ، چاہے یہ سرد جنگ ہو ، گرم جنگ ہو یا تجارتی جنگ ، کوئی حقیقی فاتح نہیں ہوگا۔ ایک دوسرے کے درمیان مساوی ، باہمی افہام و تفہیم اور باہمی مفاہمت سے ہی ، تمام مسائل حل کئے جا سکتے ہیں ۔"چینی صدر شی جن پھنگ کا یہ بیان ان لوگوں کے لئے انتہائی اہم ہے جو ذہنی الجھن میں پھنسے ہوئے ہیں۔
" زیادہ تر وقت بہت لوگ ان آنے والے خطرات کا اندازہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی بیوقوفی کی وجہ سے ان خیالوں میں پھنس جاتےہیں جو ان کو بدترین تباہی کی طرف راغب کرتے ہیں۔ اپنی تاریخی کتاب " پیلوپنیسی جنگ "میں تھکیڈائیڈس نے آنے والی نسلوں کو یوں متنبہ کیا تھا۔
مارک ٹوین کا ایک مشہور قول بھی ہے ، "بعض اوقات حقیقی زندگی افسانے کے مقابلے میں زیادہ مضحکہ خیز ہوتی ہے ، کیوں کہ افسانہ ایک خاص منطق کے تحت انجام دیا جاتا ہے ، جبکہ حقیقت اکثر منطق کے بغیر ہی ہوتی ہے"۔جی ہاں، "بس تاریخ خود کو دہراتی نہیں ، بلکہ یہ ردیف پر چلتی ہے"،اس کی وجہ انسان کی حماقت اور تکبر ہے۔ لہذا ، "انسان واحد جاندار ہے جو شرمندہ ہوتا ہے ، یا اسےشرمندہ ہونا چاہیے۔" یہ بھی مارک ٹوین کا قول ہے۔