امریکی میڈیا بلومبرگ اور پیئو ریسرچ سینٹر کی جانب سے حال ہی میں ۲ سروے نتائج پیش کیے گئے ہیں ، جن کے مطابق عالمی وبا کے مقابلےمیں امریکہ کی کارکردگی پہلے نمبر پر ہے جب کہ چین کی بین الاقوامی ساکھ منفی ہے ۔ بلومبرگ کے سروے میں درجہ سازی کے اصولوں کی ترتیب نو کرتے ہوئے امریکہ کو سر فہرست لے جایا گیا جب کہ پیئو ریسرچ سینٹر نے اپنے سروے کے لیے صرف سترہ ترقی یافتہ ممالک کا انتخاب کیا تھا ۔ یہاں ایک سوال بنتا ہے کہ پیئو نے ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک کی ایک بڑی تعداد سے رائے کیوں نہیں لی؟ سب جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں 190 سے زیادہ رکن ممالک ہیں۔ صرف 17 ممالک اور علاقے بین الاقوامی برادری کی نمائندگی کیسے کرسکتے ہیں؟ اس من مانے سروے سے یہ بات تو واضح ہے کہ پیشگی نتائج اور ہیرا پھیری کے تحت کیا گیا ، پیئو کا یہ سروے خود پسندی اور تعصب سے بھرا ہوا ہے۔متعدد مغربی ممالک کےذرائع ابلاغ پر امریکہ کے تسلط اور طرزِ فکر کے گہرے اثرات ہیں اور وہ آزادانہ طور پر سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ متعدد صحافی بھی امریکہ کے موقف کے مطابق خبر بناتے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ بلومبرگ اور پیئو سمیت متعدد ذرائع ابلاغ اور ادارے بظاہر تو پیشہ ورانہ اور آزاد نظر آتے ہیں ، لیکن درحقیقت وہ امریکہ کی طرف سے شروع کی جانے والی عوامی رائے عامہ تشکیل دینے کی جنگ کا ایک حصہ بن گئے ہیں جس کا مقصد نام نہاد امریکی نظم و نسق کو برقرار رکھنا ہے ۔