ڈبلیو ایچ اونے حال ہی میں نوول کورونا وائرس کے سراغ سے متعلق "ورک پلان"کے دوسرے مرحلے کی تجویز پیش کی ہے ، جو چین سمیت متعدد ممالک کے موقف سے متصادم ہے۔ تاحال 55ممالک نے ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل سے تحریری طور پر مطالبہ کیا ہے کہ سائنسی بنیادوں پر وائرس کا سراغ لگایا جائے اور وائرس پر سیاست سے گریز کیا جائے۔ چین وہ پہلا ملک تھا جس نے ڈبلیو ایچ او کو بروقت نوول کورونا وائرس کی اطلاع دی اور وائرس سراغ کے معاملے پر چین نے ہمیشہ کھلا اور شفاف رویہ اپنایا ہے۔ چین نے ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کو وائرس سے متعلق تحقیق اور سراغ کے لیے دو مرتبہ چین مدعو کیا ہے۔ دونوں فریقوں کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے حتمی نتائج اور سفارشات کا احترام کیا جائے اور اسے برقرار رکھا جائے۔دوسری جانب امریکہ وبا سے نمٹنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے ۔امریکہ وبا سے متاثرہ مصدقہ مریضوں اور ہلاکتوں کے اعتبار سے دنیا میں سرفہرست ہے لہذا دوسرے مرحلے میں وائرس سراغ اور تحقیق سے متعلق امریکہ کو مرکزی نقطہ ہونا چاہیے۔جولائی 2019 میں ملک میں حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کی سب سے بڑی بیس "فورٹ ڈیٹرک بائیولیب" کے اچانک بند ہو جانے سے اسی عرصے کے دوران نامعلوم "ای سگریٹ مرض" کے پھیلاو تک، امریکی انسداد امراض مرکز کے حکام نے خود نشاندہی کی ہے کہ نوول کورونا وائرس دسمبر 2019 کے اوائل میں ہی امریکہ میں پھیل چکا تھا۔دنیا میں متعدی امراض کے شکار رہنے والے اکثر ممالک ایسے بھی ہیں جہاں 200 سے زائد امریکی حیاتیاتی لیبارٹریز واقع ہیں ۔حالات و واقعات لوگوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر رہے ہیں کہ امریکی حکومت "ناقابل بیان راز" پر پردہ ڈال رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آزاد میڈیا اور زیادہ سے زیادہ ممالک بشمول جنوبی کوریا ، اسپین ، یوکرین وغیرہ میں لوگوں نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ ہی میں وائرس کی کھوج کی جائے۔ امریکہ کو بین الاقوامی برادری کی آواز کا جواب دینا چاہئے اور خود کو عالمی تحقیقات کے لیے پیش کرنا چاہیے۔