حال ہی میں چینی صدر شی جن پھنگ نے چین میں جامع اعتدال پسند خوشحال معاشرے کی تشکیل کا اعلان کیا۔یہ تاریخی ثمرات ایک ارب چالیس کروڑ آبادی کے حامل بڑے ملک میں بڑی کٹھن جدو جہد کے بعد حاصل ہوئے ہیں۔ خاص طور پر نسبتاً پسماندہ دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو خوشحال معاشرے کی افادیت کا زیادہ احساس ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ دیہات میں ہر ایک سڑک ،خوشحال معاشرے کے لیے کی جانے والی جدوجہد کی گواہ ہے۔
ہر کوئی اس اعتدال پسند خوشحال معاشرے کی تکمیل کا شاہد ہے۔ میں ۸۰ کے عشرے میں صوبہ جیانگ سو کے شمال میں واقع ایک نسبتاً پسماندہ گاؤں میں پیدا ہوئی ۔اس وقت گاؤں کے آس پاس سڑکیں کچی تھیں اور سڑکوں کے دونوں اطراف آبپاشی کے لیے نہریں تھیں۔ ٹریکٹر گزرنے کے بعد ،کچی سڑکوں پر گہرے گڑھے پڑ جاتے تھے جو کہ اکثر پانی سے بھرے رہتے تھے۔ سائیکل سوار اور پیدل افراد اس کچی سڑک کے کناروں پر ہی چل سکتے تھے اور ذرا سی بے احتیاطی سے وہ یا تو پانی سے بھرے گہرے گڑھے میں گرتے یا پھر نہر میں ۔ایسی ٹوٹی پھوٹی کچی سڑک پر احتیاط کے ساتھ ایک گھنٹہ چلنے کے بعد ہی پختہ سڑک پر پہنچتے تھے۔ برف باری یا مون سون کے موسم میں سڑکیں بالکل ٹوٹ جاتی تھیں۔مجھے یاد ہے کہ ایک سال موسم سرما میں ، میں شدید بیمارہو گئی تھی۔میرے والد دوسرے قصبے میں ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لیے مجھے کمر پر لاد کر کئی گھنٹوں تک گہری برف میں چلتے رہے۔اب چالیس سال گزر چکے ہیں اور میرے آبائی گھر تک جانے کے لیے ذرائع آمدورفت میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ اب ہر گاؤں تک بس سروس کی سہولت میسر ہے اور گاؤں کےہر کسان کے گھر تک پکی سڑک پہنچتی ہے ۔میرے والدین قصبے میں رہتے ہیں اور فصلوں کی بوائی اور کٹائی کے موسم میں واپس گاؤں جاتے ہیں۔بھاری مشینری بھی ان سڑکوں کی وجہ سے اب آرام سے یہاں پہنچ جاتی ہے اور اس مشینری کی مدد سے انہیں زرعی کام میں شدید جسمانی محنت کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔دیہات میں رہنے والے کسی بھی وقت شہر جا سکتے ہیں۔روزمرہ زندگی اور زرعی پیداوار سے متعلق کام اب بہت آسان ہو گئے ہیں۔دسمبر ۲۰۲۰ میں جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی اٹھارہویں قومی کانگریس کے بعد دو ملین کلومیٹر سے بھی زیادہ طویل دیہی شاہراہوں کی تعمیر یا مرمت کی گئی اور اب دیہی شاہراہوں کی کل لمبائی چار ملین دو لاکھ کلومیٹر سے زائد ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم اس معاشرتی ترقی کے ہر ایک قدم کے عینی شاہد ہیں۔
خوشحال معاشرے کی تکمیل کے لیے ہر ایک نے بڑی محنت کے ساتھ اپنی اپنی خدمات سرانجام دی ہیں۔بچپن میں میرے گاؤں کا ہر فرد اپنے کنبے کی کفالت کے لیے کڑی مشقت کرتا تھا ۔کوئی ریشم کے کیڑے پالتا تھا تو کوئی خرگوش پالتا تھا ،کچھ لوگ پھلوں کے درخت اگاتے تھے اور گاؤں میں چھوٹی سی ایک دکان چلانے والا بھی تھا جو کہ دیہات میں ٹی وی سیٹ خریدنے والا پہلا فرد تھا۔اپنے اپنے ذاتی معاملات کے علاوہ بہت سے مشترکہ مسائل کے حل کے لیے بھی سب متحد ہوتے تھے ،مثلاً آبپاشی کے لیے نہر بنانے کے لیے ہر ایک خاندان سے ایک مرد بھیجا جاتا تھا۔ پرائمری اسکول کی تعمیر کے لیے اپنی اپنی جیب سے پیسے دیئے جاتے تاکہ بچے تعلیم حاصل کر سکیں ۔جس سال فصل اچھی نہیں ہوتی تھی اس سال پیٹ بھرنے کے لیے کھیتوں میں اگی خود رو جڑی بوٹیوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔ بہرحال ، زندگی چاہے جتنی بھی مشکل تھی، ہر ایک بہتر مستقبل کے لیے محنت کرتا رہا ۔
تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق چین میں پچاس کروڑ ستانوے لاکھ نوے ہزار افراد دیہات میں رہتے ہیں جو کل آبادی کا چھتیس اعشاریہ گیارہ فیصد بنتا ہے۔ چین میں جامع اعتدال پسند خوشحال معاشرے کی تشکیل کے بعد، جدید سوشلسٹ ملک کی تعمیر کے لیے جدوجہد جاری ہے۔اس دوران شہری و دیہی ترقی کی ہم آہنگی کو نمایاں اہمیت دی جا رہی ہے۔چین کی چودہویں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ بندی میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ ترجیحی بنیادوں پر دیہاتی ترقی جاری رکھی جائے گی اور ترقی میں عدم توازن کے مسئلے کو حل کیا جائے گا تاکہ تمام مشترکہ خوشحال زندگی کا حصول ممکن ہو ۔