آج کی کہانی چین کے وسطی میدانی علاقے کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے شروع ہوتی ہے۔ اس گاؤں کو چو ڈا لوؤ ویلیج کہا جاتا ہے ، جو چین کے اہم زرعی صوبے حہ نان کے ایک چھوٹے سے شہر "چو کھو "سے متصل ہے۔ اس گاؤں میں آباد "چو" خاندان کے سربراہ ، چو آن لیانگ اور ان کی اہلیہ یانگ شوئی لان کے یہاں یکے بعد دیگرے پانچ بیٹیوں کی پیدائش ہوئی ۔
وقت گزرتا جا رہا تھا ، بچیاں بڑی ہو رہی تھیں۔ چو آن لیانگ ایک معاملے کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ اس کی تیسری بیٹی چو ٹئنگ، جو جونیئر ہائی اسکول میں پڑھ رہی تھی، وہ پڑھائی میں تو کوئی خاص تیز نہیں تھی لیکن وہ اپنی ہم عمر لڑکیوں سے کہیں زیادہ خوراک کھاتی تھی اور اس کا قد غیر معمولی تھا اور بہت تیزی سے بڑھ رہا تھا ، ۱۳ برس کی ہونے سے پہلے ہی اس کا قد 170 سینٹی میٹر یعنی پانچ فٹ چھ انچ سے زیادہ ہو چکا تھا. چو آن لیانگ سوچ رہا تھا کہ کسی طرح اس کو بھی پڑھائی چھڑوا کر بڑی دونوں بہنوں کی طرح ملازمت اختیار کرنے پر راضی کیا جائے تاکہ کنبے کا مالی بوجھ کم کیا جاسکے۔
ایک صبح ، جب چو ٹئنگ ، اسکول جانے کے لیے گھر سے باہر نکل رہی تھی تو چو آن لیانگ نے آواز دے کر اسے روکا اور کہا: " ٹئنگ ،تم اب چھوٹی بچی نہیں ہو۔ تمہاری دو نوں بڑی بہنیں سمجھدار ہیں اور انہیں معلوم تھا کہ انہیں گھر چلانے کے لیے میرا ہاتھ بٹانا ہو گا اسی لیے وہ ملازمت کرنے شہر چلی گئی تھیں ۔ دو دن پہلے ، تمہاری بہن نے مجھے لکھا تھا کہ اس کی فیکٹری میں نئے کارکن بھرتی کیے جا رہے ہیں ۔ دیکھو ، ہم گاوں کے لوگ ہیں ، ہمیں پڑھائی نہیں کام ۔۔۔... "
چو ٹئنگ نے چونک کر اپنے باپ کی طرف دیکھا، وہ سمجھ رہی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں لہذا اس نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا ، " ابو! اور کچھ مت کہیے گا ۔ میں اپنی بہنوں کی طرح نہیں بننا چاہتی ، مجھے اسکول جانا ہے، جونیئر ہائی اسکول کے بعد مجھے ہائی اسکول ،ہائی اسکول کے بعد میں یونیورسٹی میں پڑھنے کےیے کائےفنگ ، چنگ چو ، اور بیجنگ جاوں گی ۔ "چو ٹئنگ نے بات ختم کرتے ساتھ ہی اسکول بیگ اپنے کندھے پر ڈالا اور تیزی سے گھر سے باہر نکل گئی ۔
بیٹی ضدی تھی اور یہ ضد اس نے اپنے باپ سے لی تھی ۔ چو ٹئنگ گھر سے باہر نکلی تو چو آن لیانگ کو شدید غصہ آیا کہ وہ اس کی بات کو صاف انکار کر کے چلی گئی ، وہ چوٹئنگ کے پیچھے پیچھے باہر نکلا اور اس کے اسکول تک پہنچ گیا ۔ اسکول کے اندر داخل ہوکر ابھی وہ ادھر ادھر دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک درمیانی عمر والا مہذب شخص اس کی طرف بڑھا اور بہت شائستگی سے اس سے پوچھا
"میرے بھائی ، آپ کون ہیں اور یہاں کس کی تلاش میں آئے ہیں ؟"
چو آن لیانگ جو غصے سے بے قابو ہورہا تھا ،درشتگی سے بولا: "میں ٹئنگ کو ڈھونڈ رہا ہوں، چو ٹئنگ ، میں اس کا باپ ہوں۔"
اس شخص کو جیسے ایک لمحے کے لیے دھچکا سا لگا ، پھر اس نے بہت مہذب انداز میں چو آن لیانگ سے کہا: "آپ چو ٹئنگ کے والد ہیں اور میں چو ٹئنگ کا ہیڈ ٹیچر ہوں ۔میرا نام چانگ شیئن ای ہے۔"
چانگ شیئن ای ، چو آن لیانگ کو اپنے دفتر میں لے گئے ۔ تحمل کے ساتھ ان کی تمام بات سنی اور پھر کہا: "میں نے آپ کی تمام بات سن بھی لی ہے اور سمجھ بھی لی ہے، تاہم آپ اس سے کام کروانا چاہیں پھر بھی اسے جونیئر ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنی ہوگی۔ حکومت نے نو سالہ تعلیم کو لازمی قرار دیا ہے۔
چوآن لیانگ: لازمی تعلیم کیا ہے؟
چانگ شیئن ای : اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس بات کے پابند ہیں کہ اپنے بچے کی جونیئر ہائی اسکول تک کی تعلیم مکمل کروائیں ۔یہ ایک قومی قانون ہے۔چو آن لیانگ ، میرے بھائی ، بچی کو مزید دو سال تک اسکول آنے دیجیے ، اسے جونیئر ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے دیں،پھر دیکھیں گے ۔ ٹھیک ہے؟ "
بات ماننے کے سوا کوئی چارا بھی نہ تھا اس لیے چو آن لیانگ نے دوبارہ یہ بات نہیں کی ۔
دو سال جیسے پلک جھپکتے ہی گزر گئے ، چو ٹئنگ کا جونیئر ہائی اسکول مکمل ہونے والا تھا ۔ ایک دن چانگ شیئن ای نے تمام طلبہ سے فرداً فرداً پوچھا کہ اب فارغ التحصیل ہونے کے بعد آگے ان کا کیا کرنے کا ارادہ ہے؟ جب چو ٹئنگ کی جواب دینے کی باری آئی تو اس نے ٹیچر چانگ کی طرف دیکھا اور کہا "مسٹر چانگ ، دراصل میں ہائی اسکول اور کالج جانا چاہتی تھی ، لیکن میرے والد چاہتے ہیں کہ میں جلد از جلد کوئی ملازمت کروں اور پیسے کماوں، اب میں اور کیا کرسکتی ہوں؟ "
استاد نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور پھر کہا ، "چو ٹئنگ ،کیا تم مشکلات سے گھبراتی ہو؟ "
"سر ، میں دیہات میں پلنے والی لڑکی ہوں ، کیا میں مشکلات سے ڈر سکتی ہوں؟"
" بس یہ جملہ کافی ہے۔"
کچھ دن بعد ٹیچر چانگ ، چو آن لیانگ اور چو ٹئنگ کو لے کر ان کے گاوں سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور واقع چوکھو سپورٹس اسکول پہنچا ۔ جب اسپورٹس اسکول کے وائس پرنسپل شیا لو ہائی نے چو ٹئنگ کا قد کاٹھ دیکھا تو ان کی آنکھیں چمکنے لگیں ، انہوں نے اس کے ہائی ٹچ اور لانگ جمپ ٹیسٹس لینے کو کہا۔ ٹسٹس کے بعد شیا لو ہائی نے چانگ شیئن ای سے کہا ، "تم نے پہلے اسے یہاں کیوں نہیں بھیجا؟"
والی بال وہ کھیل تھا جس میں شیا لو ہائی مہارت رکھتے تھے ۔ چوٹئنگ کو دیکھتے ہی انہیں یہ اندازہ ہو گیا کہ یہ بچی والی بال کی زبردست کھلاڑی بن سکتی ہے۔ تاہم ، اس وقت چو کھو اسپورٹس اسکول پہلے ہی کنوئنگ اور جوڈو اسکول میں تبدیل ہو چکا تھا اور یہاں اب والی بال کا کوئی باقاعدہ پیشہ ور کوچ نہیں تھا ۔ تاہم شیا لو ہائی کی تجربہ کار نگاہوں نے چو ٹئنگ کی صلاحیتوں کو پہچان لیا تھا انہوں نے چو آن لیانگ سے کہا: "یہ بچی والی بال کے لیے موزوں ہے،پہلے میں اس کو اس کھیل کی پریکٹس کرواؤں گا۔ اگر اس کی کارکردگی اچھی ہوئی تو میں اس کی سفارش صوبائی ٹیم کے لیے کروں گا۔"
اس کے بعد ایک سال کے لیے چو ٹئنگ ، چوکھو اسپورٹس اسکول میں رہائش پذیر رہی اور ہر روز سخت پریکٹس کرنا اس کا معمول بن گیا ۔ چو ٹئنگ کی اس پریکٹس اور ٹریننگ کے نتائج بہت اچھے آئے۔ اپنی بیٹی کی عمدہ کارکردگی کو دیکھ کر چو آن لیانگ بہت خوش تھا اور اسی لیے اس نے اب باہر جا کر کام کرنے کا ذکر کرنا چھوڑ دیا تھا۔
ایک سال بعد ، گرمیوں کے موسم میں چو آن لیانگ کو حہ نان اسپورٹس اسکول سے فون آیا۔ چونکہ شیا لو ہائی کو ڈر تھا کہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹریننگ میں کمی رہ جائے ، اسی لیے انہوں نے پہلے ہی چو ٹئنگ کے لیے وہاں بات کر لی تھی ۔ صوبائی اسپورٹس اسکول نے جب چو ٹئنگ کی شاندار کارکردگی دیکھی تو بلا جھجک اسے داخلہ دے دیا ۔
صوبائی سپورٹس اسکول میں داخلے کے لیے سالانہ ۳۰ ہزار یوآن فیس درکار تھی ۔ اتنی زیادہ فیس سن کر غریب چو آن لیانگ کا دل یک دم جیسے بیٹھ گیا ، اس کی نظروں کے سامنے اپنی بیٹی کےچہرے کی خوشی اور چمک آگئی ۔یہ کھیل اس کا شوق اور اس کا مستقبل تھا ،اسی لیے اس نے فوری انکار نہیں کیا بس داخلہ آفس والوں سے اتنا پوچھا کہ : "کیا یہ تیس ہزار یوآن یک مشت ہی ادا کرنے ہوں گے ؟"
اہلکار نے کہا "نہیں" کوئی ضروری نہیں ۔یہ جواب سن کر چو آن لیانگ نے سکون کی سانس لی۔
چو ٹئنگ ، جو موسم گرما کی چھٹیوں میں گھر آئی ہوئی تھی اس نے جب یہ خبر سنی تو الجھ سی گئی پھر اس نے کہا ،"ابو، میں اس اسکول نہیں جاسکتی۔"
غیر متوقع طور پر چو آن لیانگ نے کہا کہ"میری بیٹی ! پہلے تمہارا باپ کچھ اور خیالات میں الجھا رہتا تھا ۔لیکن جب سے میں ٹیچر چانگ اور ٹیچر شیا جیسے سمجھدار لوگوں سے ملا ہوں، مجھے یہ حقیقت سمجھ میں آگئی ہے کہ مزدور چاہے کمانے کے لیے کتنی ہی زیادہ تکلیف اٹھائے، مشقت سے تھک کر چور ہو جائے ، کوئی بھی اس کی قدر نہیں کرتا۔ مشکل اور محنت تو سب کاموں میں ہوتی ہے لیکن کھلاڑی مختلف ہوتے ہیں ان کی محنت کی عزت ہوتی ہے اور اگر ہم صوبائی ٹیم میں شامل ہوجاتے ہیں تو پھر ہم شہر ی لوگ ہوں گے ۔ "
چوٹئنگ کے لیے یہ جواب غیر متوقع مگر بے حد خوشی کا باعث تھا ۔ گرمیوں کی تعطیلات کے بعد چو ٹئنگ ،شہر چنگ چو آئی اور حہ نان کے صوبائی اسپورٹس اسکول میں والی بال کی تربیت کا آغاز ہو گیا۔ والی بال کے کوچ لیو ہونگ نے محسوس کیا کہ چو ٹئنگ ایک ذہین، مضبوط قوت ارادی والی سخت جان لڑکی ہے جو کہ بہت تیزی سے سیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیو ہونگ کے خیال میں چو ٹئنگ واقعتاً والی بال کی شاندار کھلاڑی بن سکتی ہے لہذا اس کے لیے سخت تربیت درکار ہے۔ چو ٹئنگ روزانہ کئی کئی گھنٹوں تک کئی بار جمپنگ ، ہٹنگ ، قلابازیاں لگانے کی کڑی پیشہ ورانہ تربیت لیتی رہی ۔
ایک رات ، جب چو آن لیانگ کام کے بعد گھر واپس آیا تو فون کی گھنٹی بجی۔ فون اٹھایا تو دوسری طرف سے چو ٹئنگ نے روتے ہوئے کہا : "ابو ، میں اور پریکٹس نہیں کرنا چاہتی"
" چو آن لیانگ نے پریشانی کے عالم میں پوچھا ، کیوں بیٹی ، کیا ہو گیا؟"
"ابو ! یہ سب بہت ہی بری طرح تھکا دینے والا اور بے حد تکلیف دہ ہے!"
اپنی بیٹی کا رونا سن کر ، چو آن لیانگ کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے بہت پیار اور نرمی سے بیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : "میری بیٹی !جب ایک زبردست کھلاڑی بننے کا ارادہ کر لیا ہے ، تو پھر چاہے تمہیں کتنی ہی تھکاوٹ اور تکلیف کا سامنا ہو ، تمہیں اپنا خون پسینہ ایک کرنا ہوگا ، جان لڑانی پڑے گی ۔ تم ایک باہمت لڑکی ہو سب سے الگ ہو، ہمت نہیں ہارنی ۔"
چو آن لیانگ یوں تو کھیتی باڑی کے کام جتا رہتا تھا لیکن چو ٹئنگ کی فیس اکٹھی کرنے کے لیے ، اس نے کام کے وقفے کے دوران اپنے گھر کے سامنے زرعی مشینوں کی مرمت کی دکان کھول لی ۔ ایک دن ، چو آن لیانگ مشین کے نیچے لیٹ کر اس کے پرزے ٹھیک کر رہا تھا کہ اچانک بھاری مشین اس کی کمر پر آگری وہ خود کو حرکت دینے کے قابل بھی نہیں رہا ۔اس افتاد پر چو خاندان بوکھلا گیا ، چو ٹئنگ کی والدہ یانگ شوئی لان نے ہر جگہ سے رقم ادھار لی اور چو آن لیانگ کے علاج کے لیے اسے چوکھو اور چنگ چو لے گئی ۔ آپریشن کے لئے چو آن لیانگ ایک لاکھ یوآن سے زائد کا مقروض ہو گیا۔ یانگ شوئی لان نے کئی بار چو ٹئنگ کو والد کی چوٹ کے بارے میں بتانے کی کوشش کی ، لیکن چو آن لیانگ نے ہمیشہ اسے منع کر دیا۔
چو آن لیانگ آپریشن کے بعد گھر آگیا ، وہ ابھی بستر پر ہی تھا کہ ایک دن اچانک چو ٹئنگ اپنے تمام سامان سمیت گھر آگئی ۔ اپنے والد کو بستر پر پڑا دیکھ کر وہ دھک سےرہ گئی۔
یانگ شوئی لان نے پوچھا کہ وہ تمام تر سامان سمیت گھر کیوں آئی ہے؟ سب خیریت ہے نا ؟
ٹئنگ نے بتایا کہ اسپورٹس اسکول میں تربیت بہت سخت ہے ، اور اب اس کے لیے اسے جھیلنا بہت مشکل ہو رہا ہے ، لہذا وہ اپنے ارادے سے پیچھے ہٹ گئی ہے ۔ یہ کہتے ہوئے وہ اپنے ماں کے گلے لگ کر رونے لگی اس کی والدہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا :
"میری بچی ! تم تو ہمارا مان اور ہم سب کی امید ہو ،کیا تم نہیں جانتی کہ تمہارے والد صبح سویرے اٹھ کر ، کام کے وقفے میں اپنی تھکن کا خیال کیے بغیر کیوں ان بھاری مشینوں کی مرمت کی دکان کھولتے ہیں؟اب اس وقت تم پیچھے نہیں ہٹ سکتیں۔"
چو ٹئنگ بستر پر پڑے اپنے والد سے لپٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی ، کچھ دیر کے بعد اس نے اپنے آنسووں کو پونچھتے ہوئے پر عزم لہجے میں کہا : "ابو! اگر میں صوبائی ٹیم میں جگہ نہ بنا سکی تو میں چو خاندان کی فرد نہیں کہلاوں گی ۔"
چو ٹئنگ واپس چلی گئی اور کوچ لیو ہونگ کی رہنمائی میں ایک مرتبہ پھر سے سخت تربیت حاصل کرنے لگی ۔ دو سال بعد ، چو ٹئنگ کو بہترین کارکردگی کے باعث صوبائی ٹیم میں منتخب کر لیا گیا۔ اب چو ٹئنگ کو صوبائی ٹیم سے ماہانہ الاؤنس ملنے لگا اور اس کے والدین کو اس کی ٹریننگ کے لیے پیسے جمع کرنے کی ضرورت نہیں رہی ۔ لیکن اسے اپنے والدین اور ان کی قربانیاں یاد تھیں، وہ اس رقم کو خود پر خرچ نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے یہ رقم اپنے گھر بھیج دیتی تھی ۔
وقت گزرتا رہا ، چو ٹئنگ جی جان سے اپنے کھیل میں بہتری کے لیے کوشاں تھی ، اس کی کوششیں رنگ لائیں اور وہ چینی خواتین کی والی بال لیجنڈ-لانگ پھنگ کی نظروں میں آگئی جنہوں نے اسے خواتین کی قومی والی بال ٹیم کے لیے منتخب کر لیا۔ ۲۰۱۶ میں چو ٹئنگ والی بال ٹیم کے ساتھ برازیل میں منعقدہ ریو ڈی جنیرو اولمپک گیمز میں گئی۔ چینی خواتین کی والی بال ٹیم نے سربیا کی ٹیم کو ۱-۳ سےہرا کر سونے کا تمغہ جیتا۔
چو ٹئنگ نے والی بال کے اپنے سب سےپہلے کوچ ، چو کھو اسپورٹس اسکول کے شیا لو ہائی ، کو وی چیٹ پیغام بھیجا: "مسٹر شیا ! ہم جیت گئے۔"
شیا لو ہائی نے جواب دیا کہ "مبارک ہو ، مگر یاد رہے ابھی آپ ایک بہترین کھلاڑی ہیں ،ایک عظیم کھلاڑی نہیں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ لانگ پھنگ ، یاؤ منگ ، پیلے اور مائیکل جارڈن جیسے عظیم کھلاڑیوں کی فہرست میں اپنا نام شامل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔"
آج ، چو ٹئنگ ، ٹوکیو اولمپکس میں چینی خواتین والی بال ٹیم کی قیادت کر رہی ہیں۔ افتتاحی تقریب میں چینی کھیلوں کے وفد کی پرچم بردار چو ٹئنگ ، ناصرف اپنے والدین ، چو خاندان ، اپنے اساتذہ بلکہ ، چین کا فخر ہیں ۔