کچھ دن پہلے چائنا میڈیا گروپ کے تحت سی جی ٹی این تھنک ٹینک کی جانب سے جاری کردہ ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ ووٹنگ میں حصہ لینے والے 80 فیصد عالمی لوگوں کا خیال ہے کہ نوول کرورونا وائرس کے ماخذ کی تلاش پر سیاست کی گئی ہے اور وہ اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا بھر میں وائرس کے ماخذ کی شناخت کو کثیر نکاتی اور کثیر جہتی انداز میں انجام دیا جانا چاہیے۔
لوگوں کے دل آئینہ ہوتے ہیں۔ اس سروے کے نتائج مکمل طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ کی سربراہی میں چند مغربی ممالک نے "ٹریس ایبلٹی" پر عوامی حمایت کے بغیر غیر مقبول طریقے سے سیاست کی ہے۔ یہ سائنس کا احترام کرنے اور وبا سے لڑنے کے لیے متحد ہونے کے زمانی رجحان سے مطابقت نہیں رکھتا، اور دنیا بھر میں انٹرنیٹ صارفین نے اس رجحان کی مخالفت اور مذمت کی ہے۔
رواں سال مارچ کے آخر میں، عالمی سطح پر وائرس کا سراغ لگانے کے چینی حصے کو ختم کرنے کے بعد، ڈبلیو ایچ او اور چینی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے باضابطہ طور پر ایک رپورٹ جاری کی، جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ نوول کورونا وائرس کا چینی لیبارٹریوں سے لیک ہونے کا "انتہائی کم امکان" ہے اور دنیا کی وسیع رینج میں ممکنہ ابتدائی کیسز کی تلاش جاری رکھنے کے لیے تجاویز پیش کی گئی۔
تاہم، امریکہ سمیت چند ممالک نے اس رپورٹ کی سائنسی نوعیت کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا اور ٹریس ایبلٹی کے کام پر غیر قانونی طریقے سے سیاست کی۔ امریکہ میں کچھ لوگوں نے وبا کے خلاف غیر مؤثر کوششوں کی ذمہ داری منتقل کرنے اور چین کو بدنام کرنے اور دبانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔
گندی اور بدصورت سیاسی ہیرا پھیری کے اس منظر نے وائرس کا سراغ لگانے کے عالمی نظام کو سنجیدگی سے متاثر کیا ہے اور عالمی انسداد وبا کے تعاون کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جس نے پوری دنیا کو غم و غصے میں مبتلا کر دیا ہے۔حال ہی میں تقریباً 60 ممالک نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل کو خط لکھا یا ان تک اپنی آواز پہنچائی، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ٹریس ایبلٹی کے مسئلے پر سیاست نہیں کی جا سکتی۔ سی جی ٹی این تھنک ٹینک کے عالمی آن لائن سروے سے مذکورہ عالمی اتفاق رائے کو زیادہ واضح طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔