امریکی سیاستدانوں کی چین کو محدود کرنے کی پالیسی افسوسناک ہے ، سی آر آئی کا تبصرہ

2021-08-01 20:26:58
شیئر:

图片默认标题_fororder_472309f790529822c0fe755df8739fc30846d4a5

کئی سینئر امریکی عہدیداروں نے حال ہی میں چین اور چین کےآس پاس دیگر علاقوں کے دورے کیے ہیں ۔امریکی نائب وزیر خارجہ شرمن کے جاپان ، جنوبی کوریا ، منگولیا اور چین کے دورے ، وزیر خارجہ بلنکن کا دورہ بھارت  اور اسی طرح وزیر دفاع آسٹن نے تین جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے دورے کیے ہیں۔اس دوران اعلیٰ امریکی عہدیداروں نے نام نہاد انڈو پیسیفک حکمت عملی کو جبری طور پر آگے بڑھایا ہے اور " چین کو محدود کرنے کا ایک دائرہ " بنایا ہے۔یہ سازش بالکل واضح ہے۔اگرچہ شرمن نے اپنے دورہ چین کے دوران دعویٰ کیا کہ امریکہ چین کی ترقی کو روکنا نہیں چاہتا ہے مگر دوسری جانب موجودہ امریکی حکومت کے پہلے کابینہ رکن کی حیثیت سے آسٹن کے جنوب مشرقی ایشیا کے دورے کے بعد بحیرہ جنوبی چین ، تائیوان اور سنکیانگ جیسے امور پر سیاہ اور سفید واضح ہو چکا ہے۔ سنگاپور میں ایک فورم کے دوران انہوں نے  نام نہاد "چین سے خطرے" کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور چین اور پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی دھمکی دی۔آسٹن کا ویتنام اور فلپائن کا اگلا دورہ  امریکہ کی جنوب مشرقی ایشیائی ممالک پر برتری سے چین پر قابو پانے کی کوششوں کا مزید مظہر ہے۔ آسٹن نے وعدہ کیا کہ امریکہ ویت نام کو اپنی بحری سلامتی کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے سمیت اسے فوجی آلات فراہم کرنے میں مدد کرے گا۔ آسٹن نے فلپائن پر دباؤ ڈالا کہ وہ "امریکہ۔ فلپائن کلیدی دفاعی معاہدے" کو ختم کرنے کا اپنا فیصلہ واپس لے ، جس سے بڑی تعداد میں امریکی فوجیوں کے داخلے اور مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لینے کی اجازت ملتی ہے۔یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے اپنے فوجی اور سیاسی وسائل کو چین کی پڑوسی طاقتوں جیسے بھارت اور جاپان کے علاوہ جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک تک بھی بڑھاوا دیا ہے ۔ اسی دوران امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے بھارت میں "مشترکہ علاقائی سلامتی کے مفادات" کی وکالت کی اور انڈو پیسیفک حکمت عملی اور "چار ملکی میکانزم" کے ہمہ گیر فروغ کی بات کی۔امریکی پالیسی سازوں کو اب چین کو "خیالی دشمن" نہیں سمجھنا چاہیے اور ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس میں عمومی طور پر تعاون کی بات کی جاتی ہے مگر درپردہ محاز آرائی میں مصروف نظر آتے ہیں ، انہیں دنیا میں چین کو محدود کرنے کا رویہ ترک کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ پائیدار اور مستحکم چین۔ امریکہ تعلقات نہ صرف دونوں فریقوں کے مفادات میں ہیں بلکہ عالمی برادری کی بھی مشترکہ امید ہے۔