حال ہی میں سی جی ٹی این تھنک ٹینک نے اقوام متحدہ کی چھ سرکاری زبانوں میں دنیا بھر کے شہریوں کے لیے ایک آن لائن سروے منعقد کیا۔سروے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ 83.1 فیصد شہریوں نے عالمی ادارہ صحت کی امریکہ میں وائرس سراغ سے متعلق تحقیقات کی حمایت کی ہے۔امریکہ میں ابتدائی کیسز کی شروعات سے لے کرفورٹ ڈیٹریک لیبارٹری کے بند ہونے کے بعد سانس کے نامعلوم مرض تک ،اسی طرح یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا لیبارٹری میں جہاں "کورونا وائرس سیفٹی" کے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں ،امریکہ میں "مشتبہ وبا" وقت کے ساتھ ساتھ مزید بڑھتی گئی ہے اور زیادہ سے زیادہ بے نقاب ہوتی گئی ہے۔
امریکہ کو خاص طور پر دنیا کے ایک سوال کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔امریکہ ایک ماہ قبل ہی یہ کیسے جانتا تھا کہ ووہان میں متعدی مرض پھیل جائے گا؟ ٹائمز آف اسرائیل جیسی میڈیا رپورٹس کے مطابق نومبر 2019 کے اوائل میں امریکی فوج نے اسرائیل اور نیٹو کے ساتھ خفیہ معلومات شیئر کرتے ہوئے پیش گوئی کی کہ کورونا وائرس وبائی مرض شروع ہونے والا ہے اور ان معلومات میں ووہان کا تذکرہ کیا گیا۔ روسی میڈیا امریکی فوج کی انٹیلی جنس کو نوول کورونا وائرس کے ماخذ سے جوڑتا ہے جس کے تحت مریکی فوجی وفد اکتوبر 2019 میں ووہان میں منعقدہ عسکری ورلڈ گیمز میں شرکت کے دوران وائرس اپنے ساتھ لایا۔
اگرچہ ڈبلیو ایچ او اور چین کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے مارچ کے اواخر میں جاری ایک رپورٹ میں لیبارٹری سے وائرس اخراج کے امکان کی نفی کی لیکن امریکی سیاست دانوں نے ڈبلیو ایچ او پر دباؤ ڈالا کہ وہ "دوسرے مرحلے " کا انعقاد کرے تا کہ چین کو نشانہ بنایا جا سکے۔ سی جی ٹی این تھنک ٹینک کے سروے کے ذریعے ، لوگ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ عالمی رائے عامہ نے امریکہ کے خلاف عدم اعتماد اور عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے ، اس سے امریکہ کا دوہرا معیار بھی ظاہر ہوا ہے۔وبائی صورتحال کے دوران ایشیائی باشندوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے دنیا کے پاس امریکی حکومت سے وضاحت طلب کرنے کی عمدہ وجوہات موجود ہیں کہ امریکہ اور عالمگیر وبا کے پھیلاو کے درمیان کیا تعلق ہے؟