جاپان کے دارالحکومت ، ٹوکیو میں اولمپکس کا میلہ سجا ہے ۔ روز کوئی نیا ریکارڈ بنتا تو کوئی ریکارڈ بہتر ہوتا ہے ، کچھ کھلاڑی سونے ، چاندی ، کانسی کے تمغے سینوں پہ سجاتے تو کچھ اپنے عزم و ہمت کی داستان سے میڈل جیتے بغیر ہی لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتے ہیں ۔
پچیس جولائی کا دن ہے ، ٹوکیو اولمپکس میں مردوں کے ۶۷ کلو ویٹ لفٹنگ کا فائنل ہو رہا ہے۔ سونے کا تمغہ جیتنے کے لیے چینی کھلاڑی شین لی جون اور کولمبیا کے لوئیس جیویئر لوزانو مقابلہ کر رہے ہیں ۔
شین لی جون نے سنیچ میں ۱۴۵ کلوگرام کی اپنی پہلی لفٹ آسانی سے مکمل کی ، لیکن باقی ۱۵۰ اور ۱۵۱ کلو کی دو کوششیں ناکام ہو گئیں ۔ اس ناکامی نے اس پر دباو کو یک دم بڑھا دیا ہے کیونکہ کولمبیا کے لوزانو کو چینی ویٹ لفٹر پر ۶ کلو کی برتری حاصل ہو گئی ہے۔
اب خود کو بغیر کسی ناکام کوشش کے آگے لے جانے کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہے ، شین نے ۱۷۵ کلو گرام کے ساتھ کلین اینڈ جرک کا آغاز کیا اور پہلی ہی کوشش میں کامیاب ہوا ، لیکن اس کا مقابل لوزانو جسے پہلے ہی ۶ کلو کی برتری حاصل ہے اس نے بھی اس مرحلے پر کامیابی حاصل کر لی ہے۔
مقابلہ لی جون کے لیے چیلنجنگ ہے ، اس میں آگے بڑھنے اور کامیاب ہونے کے لیے مضبوط اعصاب کی ضرورت ہے ۔ لوزانو نے اپنی آخری دو کوششوں میں دو بار ۱۸۰ کلو گرام چیلنج لیا اور آخری لفٹ میں کامیاب ہو گیا ۔ اب لی جون اس سے مجموعی طور پر ۱۱کلو گرام پیچھے ہے اور اس کے پاس دو مواقع باقی ہیں۔
مقابلہ کانٹے کا ہو گیا ہے ، فرق ۱۱ کلو کا ہے مگر شین لی جون کے چہرے پر جھلکتا عزم بتا رہا ہے کہ وہ اس فرق کو ختم کرنے تہیہ کر چکا ہے۔ لی جون نے اپنی دوسری کلین اینڈ جرک کوشش میں ۱۸۷ کلو کا انتخاب کیا ہے- اس سے پہلے اس نے یہ وزن کبھی نہیں اٹھایا۔ لیکن یہ رسک ہے جو اس نے لیا ہے۔ سب کی نظریں شین لی جون کی جانب ہیں اور ماحول میں جیسے ایک گہری خاموشی گھل گئی ہے۔ وہ ، وزن اٹھانے سے قبل ایک مختصر وقفے کے دوران اپنی نشست پر خاموشی سے بیٹھا ہے ، اس کا یہاں تک کا سفر آسان نہیں تھا ، یہاں تک پہنچنے کے لیے اس نے خون پسینہ ایک کیا تھا ۔
جنوب وسطی چین میں واقع صوبہ حو نان کی کاؤنٹی آن حوا ، جو قومی سطح پر انتہائی پسماندہ کاونٹی تھی ، جہاں ایک تن ساز ، کے یہاں شین لی جون کی پیدائش ہوئی ۔ ان کے والد اپنے علاقے میں ہرکولیس مشہور تھے۔دو ہزار تین میں ان کے علاقے میں بچوں کی ویٹ لفٹنگ ٹیم کے لیے داخلے ہو رہے تھے کہ کسی نے کوچ جیانگ ای لونگ سے کہا کہ گاوں میں ایک گھرانے کے یہاں ایک بچہ ہے جو ویٹ لفٹنگ کے لیے مناسب ہو سکتا ہے۔کوچ جیانگ نے شین کے گھر جا کر ان کے والد سے ملاقات کی ، دس سالہ شین لی جون کو دیکھا جس کا قد اس وقت صرف ایک اعشاریہ تین میٹر تھا اور وہ بہت ہی دبلا پتلا تھا۔
کوچ جیانگ نے شین لی جون کو کہا کہ وہ ایک لمبی چھلانگ کر کے دکھائے۔شین لی جون نے ننگے پاؤں سے سیمنٹ کے صحن میں ہی بہت لمبی چھلانگ لگا دی ۔ کوچ جیانگ نے فوراً پیمائش کی اور ان کی آنکھوں میں حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی کی چمک آئی ، شین نے دو اعشاریہ تین چھ میٹر تک چھلانگ لگائی تھی۔کوچ جیانگ نے شین لی جون کو کہا کہ وہ آسانی سے جتنے پش اپ کر سکتا ہے کر کے دکھائے اور شین نے بہت آرام کے ساتھ پچاس سے زائد پش اپس کر دکھائے ۔کوچ نے فوراً شین کے والدین کو تجویز دی کہ وہ اس بچے کو کھیلوں کے اسکول میں داخل کروائیں ۔شین لی جون کے والد نے ان کی بات کی تائید کی لیکن ان کی والدہ کے خیال میں ویٹ لفٹنگ بہت مشکل کام ہے اور اگر بیٹا کامیاب نہ ہو سکا تو اس عمر میں اس سخت جسمانی تربیت کے باعث اس کا قد چھوٹا رہ جائے گا اور آگے چل کر اس کے لیے کوئی اچھی لڑکی نہیں ملے گی ۔کوچ جیانگ مایوس ہو کر چلے گئے۔کئی دن بعد وہ ایک مرتبہ پھر آئے اورانہیں ایک دفعہ پھر انکار کر دیا گیا۔
شین لی جون کے گھر میں کافی کھٹ پٹ ہوئی کیونکہ شین لی جون اور ان کے والد کھیلوں کے اسکول میں جانا چاہتے تھے لیکن والدہ بہت مخالفت کرتی تھیں۔ دوسری طرف کوچ جیانگ بھی ہار نہیں مان رہے تھے ،گرمیوں کے موسم میں وہ ۴ ، ۵ مرتبہ شین کے گھر گئے اور والدہ کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔چونکہ شین کے والدین غریب تھے لہذا کوچ جیانگ نے اسکول کی فیس معاف کروانے کا وعدہ بھی کیا۔ آخر کار والدہ نے ہاں کہہ دی ۔
کھیلوں کے اسکول میں داخلہ ہوا تو شین بہت خوش تھا اور وہ وہاں بہت محنت کرتا تھا ۔ہر روز وہ دوسروں سے پہلے ورزش اور مشق کا آغاز کرتا اور دوسروں کے بعد ختم کرتا۔لیکن قسمت کا کرنا ایسا ہوا کہ تقریباً ایک سال بعد شین لی جون کے والد بیمار پڑگئے۔گھر کا سارا بوجھ شین لی جون کی والدہ کے کندھوں پر آگیا۔شین لی جون یہ سب حالات سن کر اسکول سے نکلا ، اپنی ٹریننگ کو خیر باد کہا اور ملازمت ڈھوندنے کا ارادہ کیا۔کوچ جیانگ ایک دفعہ پھر شین کے گھر پہنچے اور ان کی والدہ سے بات کی ۔ انہوں نے والدہ کو کہا کہ شین لی جون جیسی غیر معمولی اور اعلی صلاحیتوں والے بچے بہت مشکل سے ملتے ہیں ۔میرا یہ وعدہ ہے کہ شین لی جون ناصرف چین کا چیمپیئن بنے گا بلکہ عالمی چیمپیئن بنے گا ۔
شین کی والدہ نے کوچ کی یہ باتیں سنیں تو ان کی آنکھیں بھر آئیں ، انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے بیٹے کے شاندار مستقبل کی راہ میں اپنے حالات کو رکاوٹ نہیں بننے دیں گی اور ہر طرح سے اس کا ساتھ دیں گی ۔اس کے بعد شین کی والدہ ،صوبہ حو نان کے صدر مقام چھانگ شا میں ایک دن میں تین ملازمتیں کرنے لگیں۔ وہ یہ تمام پیسے گھر والوں کو بھیج دیتی تھیں۔
اسپورٹس اسکول میں واپس آنے کے بعد شین لی جون نے محنت مزید سخت کر دی ۔ چھ سال کی شب وروز محنت کے بعد شین لی جون کا جسم زیادہ مضبوط اور ارادے زیادہ پختہ ہو گئے ۔
شین لی جون کی کامیابیوں کا سفر شروع ہوا
2010 میں ، 17 سالہ شین لی جون نے ورلڈ یوتھ چیمپئن شپ جیتی۔
2013 میں ، 20 سالہ شین لی جون نے ورلڈ ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ جیت لی۔
اپنے خاندان کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے اس نے اپنی انعامی رقم کا استعمال کیا۔ والدین کو ہر طرح کی سہولت اور آرام دینا اس کا خواب تھا ، اس کے والد کی ایک پرانی خواہش تھی کہ وہ فریج لیں شین نے اپنے گھر کے لیے ایک ڈبل ڈور فریج بھی خریدا۔ ہاں مگر افسوس کی بات یہ تھی کہ ایک سال قبل اس کی کامیابی کا یقین رکھنے والے اس کے والد بیماری سے ہار گئے تھے ، ان کے انتقال کے ایک سال بعد شین نے ان کی خواہش کے احترام میں یہ فریج لیا تو اس کی آنکھیں چھلک گئیں۔
2015 میں ، شین لی جون نے ورلڈ چیمپئن شپ میں اپنی چیمپئن شپ کا دفاع کیا اور عالمی ریکارڈ توڑ دیا۔
ریو ڈی جنیرو اولمپکس ۲۰۱۶ میں جب شین لی جون ویٹ لفٹنگ کے مقابلوں میں شرکت کے لیے برازیل گیا ۔ اس وقت تک آن حوا کاؤنٹی میں عوام کا معیارِ زندگی بہت بہتر ہوچکا تھا ۔ جس دن فائنل مقابلہ تھا اس دن ان کے گاؤں والے ، اس کے گھر جمع تھے ۔ وہ سب ٹی وی پر شین لی جون کی شاندار پرفارمنس کے منتظر تھے ۔
ادھر ریو ڈی جنیرو میں ، مقابلے کے میدان میں اترنے سے پہلے اچانک ہی شین لی جون کی دونوں ٹانگیں جیسے پتھر کی طرح سخت ہو کر اکڑ گئیں ، ایک ناقابلِ برداشت درد نے اسے نڈھال کر دیا
جب سٹیج پر جا کر وزن اٹھانے کا وقت آیا تو ،شین لی جون لنگڑاتے ہوئے ویٹ لفٹنگ پلیٹ فارم پر پہنچے ۔تکلیف سے زیادہ اداسی اور مایوسی اس کے چہرے پر طاری تھی۔ اس نے جھک کر ویٹ بار کو پکڑ ا اور اسے اٹھانے کے لیے پوری ہمت مجتمع کی ایک جھٹکے سے اسے اٹھایا ،ویٹ بار کندھوں تک پہنچ گئی لیکن اس سے پہلے کہ وہ بازو اٹھا کر اسے کندھوں سے اوپر لے جاتا ، تکلیف کی ایک تیز لہر نے اس کی ہمت توڑ دی ، اس نے ویٹ بار واپس رکھ دی اور سر جھکائے تیزی سے سٹیج سے اتر گیا ۔
شین کے گاوں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہوئے سب لوگ یک دم جیسے سکتے میں آگئے ۔شین کی ماں بیٹے کی تکلیف اور کرب کو سمجھ سکتی تھی وہ رونے لگی ، اسی وقت ان کے سیل فون کی گھنٹی بجی انہوں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف شین لی جون بچوں کی طرح بلک بلک کر کہہ رہا تھا ، مجھے معاف کر دیں ، ماں مجھے معاف کر دیں ۔
ریو ڈی جنیرو سے واپس آنے کے بعد شین لی جون نے ٹوکیو اولمپکس ۲۰۲۰میں چیمپئن شپ جیتنے کا ہدف طے کرتے ہوئے اپنی فٹنس اور ٹریننگ پر غیر معمولی توجہ دی۔
۲۵ جولائی ۲۰۲۱
شین لی جون کے سامنے آج ایک فیصلہ کن لمحہ اسے پکار رہا ہے ۔ مردوں کے ۶۷کلو ویٹ لفٹنگ فائنل میں وزن اٹھانے کے لیے اس کے نام کا اعلان ہو چکا ہے ۔شین لی جون مضبوط قدموں سے چلتا ہوا پلیٹ فارم پر پہنچ گیا ہے ، ویٹ بار کے سامنے مضبوطی سے کھڑا ہوا ، وہ ایک چٹان کی طرح مضبوط مگر سمندر کی طرح پرسکون نظر آرہا ہے ، سمندر جو اپنی تہہ میں طوفان چھپائے بظاہر پرسکون ہوتا ہے ، شین لی جون نیچے جھک گیا ہے اس نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر ویٹ بار کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا ہے ۔ ایک شیر کی طرح دھاڑتے ہوئے شین لی جون نے ایک ہی جھٹکے میں ویٹ بار اپنی کمر تک اٹھا لی ہے۔
اب وہ ویٹ بارکو اپنے کندھوں کی پوزیشن پر لے آیا ہے۔پلیٹ فارم سے نیچے کھڑا ہوا کوچ خوشی اور جوش کے عالم میں چیخ رہا ہے اس کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے ۔پلیٹ فارم پر وزن اٹھائے ہوئے شین لی جون کا جسم کانپا اس کی ایک ٹانگ ہلکی سی دوہری ہوئی ، دوسری ٹانگ پیچھے کی جانب سیدھی ہوئی اورایک جھٹکے کے ساتھ اس نے دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامی ہوئی ویٹ بار کو اپنے سر سےاونچا کر لیا ۔
کلین اینڈ جرک مقابلے کے لیے کھلاڑیوں کو ویٹ بار اپنے سر سے اونچی اٹھانی ہوتی ہے اور ایک موثر لفٹ کے لیے اسی حالت میں تین سیکنڈ تک مسلسل کھڑے رہنا ہوتا ہے۔
۱۸۷ کلو وزن کے ساتھ شین لی جون سیدھا کھڑا ہے ، تاہم اس کے جسم پر ایک کپکپی سی طاری ہے ، لیکن نہ اس کے قدم ڈگمگا رہے ہیں نہ اس کے بازو ڈھیلے پڑ رہے ہیں اور نہ ہی اس کے چہرے پر موجود چمک کم ہو رہی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ۱۸۷ کلوگرام ،وہ وزن ہے جسے اٹھانے کی جرات اب سے پہلے اس درجے کے کسی اولمپک ویٹ لفٹر نے نہیں کی۔ چھ سیکنڈ ہو گئے ہیں ، پلیٹ فارم پر سیدھے بازو کیے ، ویٹ بار کو سر سے اوپر اٹھائے شین لی جون ڈٹا ہوا کھڑا ہے۔ یک دم تین سفید لائٹس روشن ہوئیں یہ اعلان تھا کہ یہ لفٹ ، مکمل طور پر کامیاب قرار پائی ، اور یوں اولمپکس کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا۔
شین لی جون نے اپنی کامیابی کے بعد اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر پوسٹ میں لکھا ۔
" یہ ہی "چائنیز سپرٹ " ہے کہ چاہے سامنے کتنی بھی مشکلات آجائیں اپنی قسمت اپنے ہاتھوں سے لکھنی ہے۔"