۴ اگست کو امریکی وزارت دفاع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے تائیوان کو ۷۵ کروڑ امریکی ڈالر مالیت کے ہتھیار فروخت کرنے کی منظوری دی ہے ۔ امریکہ کا یہ اقدام نہ صرف چین کے داخلی امور کی سنگین خلاف ورزی اور چین کے اقتدار اعلیٰ اور علاقائی سالمیت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ یہ عالمی قوانین اور بین الاقوامی تعلقات کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے ۔علاوہ ازیں یہ ایک چین کے اصول اور چین ۔امریکہ تین مشترکہ اعلامیے کی خلاف وزری بھی ہے جس پر چین شدید احتجاج کرتا ہے اور صورت حال کے مطابق اپنا مناسب اور لازمی ردِعمل ظاہر کرے گا۔
موجودہ امریکی انتظامیہ کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکہ اور تائیوان کے درمیان روابط بڑھ رہے ہیں جس سے تائیوان کی صورتحال میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہے کہ آبنائے تائیوان کے علاقے کے امن و امان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والا اور یہاں کے لیے سب سے بڑاسیکورٹی خطرات پیدا کرنے والا ، امریکہ ہی ہے۔حالیہ برسوں میں امریکہ چین کے لیے مشکلات بڑھانے کی خاطر نام نہاد "انڈو-پیسفک اسٹریٹجی" کو تیزی سے فروغ دے رہا ۔ وہ تائیوان کو اس حکمت عملی کا ایک حصہ سمجھتے ہوئے چین کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے ایک مہرے کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ تائیوان میں انٹر نیٹ صارفین امریکی ہتھیاروں پر کڑی تنقید کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ امریکہ تائیوان کو بے حد پرانے اور فرسودہ ہتھیار فروخت کر رہا ہے جس کا مقصد صرف تائیوان سے پیسہ بنانا ہے ۔ آبنائے تائیوان کی صورتحال میں تبدیلی آئے گی ،تو امریکہ کے لیے تائیوان ایک پٹا ہوا مہرہ بن جائے گا۔ تائیوان چین کا اٹوٹ حصہ ہے۔ امریکہ کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ چین کسی غیرملکی قوت کو کسی بھی طریقے سے اپنے داخلی امور میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دےگا۔