پچیس جولائی دو ہزار سترہ کا دن اس ماہ کا بہت ہی گرم دن تھا ۔ فضا میں گرمی کے ساتھ شدید حبس بھی تھا۔ درختوں سے گھری بیجنگ زچہ و بچہ ہسپتال کی عمارت اس موسم میں ان درختوں میں موجود جھینگروں کے شور سے گونج رہی تھی ۔ ہسپتال میں موجود مریضوں میں سے ایک خاتون بے حد تکلیف جھیل رہی تھی ، وہ زچگی کے مرحلے میں تھی ۔ خاتون کے شوہر نے اس کی حالت سے متعلق مشورہ لینے کے لیے ایک ڈاکٹر کو بلایا ۔ ڈاکٹر نے مریضہ کا معائنہ کیا اور پھر کہا ، ہم انتظار کریں گے لیکن یہ ذہن میں رکھیے کہ ان کی جسمانی ساخت کے باعث یہ ایک عام اور آسان کیس نہیں ہے ، اس میں پیچیدگی ہو سکتی ہے ۔ اس خاتون کا نام ووجینگ یو ہے ۔ اس شدید تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے اسے پورا ایک دن گزر چکا ہے لیکن چونکہ وہ ایک ایتھلیٹ ہے لہذا وہ اپنی ہمت نہیں ٹوٹنے دے رہی۔
ڈاکٹرز نے ایک مرتبہ پھر مریضہ کی صورتِ حال پر مشاورت کی اور آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد آپریشن روم سے ایک نومولود کے رونے کی آواز سنائی دی ۔ نرس نے بے حد خوشی کے ساتھ وو جینگ یو کی بیٹی کے دنیا میں آنے کی خوشخبری سنائی ۔
ووجینگ یو ، تائیکوانڈو کی کھلاڑی ہیں اور چینی تائیکوانڈو میں ان کا نام بے حد قابلِ احترام ہے۔ وو جینگ یو جنوبی چین کے صوبہ جیانگ شی میں پیدا ہوئی تھیں ۔ان کا آبائی شہر جینگ ڈےزن ہے جو شاندار چینی مٹی کے برتنوں کے باعث پوری دنیا میں مشہور ہے۔ان کے شوہر کا نام حو کھون ہے جو ایک مشہور چینی اولمپک کلیکٹر اور بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے تحت ثقافت و اولمپک ورثہ کمیٹی کے رکن ہیں ۔ ان دونوں کی شادی دو ہزار چودہ میں ہوئی تھی ۔ وو جینگ یو ایک عام کھلاڑی نہیں ہیں ، انہوں نے دو ہزار آٹھ اور دو ہزار بارہ سمراولمپکس دونوں میں سونے کے تمغے جیتے تھے ۔جب سمر اولمپکس ۲۰۱۶ برازیل میں منعقد ہوئیں تو وو جینگ یو نے تیسری مرتبہ خواتین کے تائیکوانڈو مقابلے میں حصہ لیا ۔ لوگ ان کے تیسری مرتبہ چیمپیئن شپ جیتنےکے لیے بےحد پرامید تھے۔بے حد دباو کی وجہ سے وہ یہ چیمپیئن شپ نہ جیت سکیں اور پھر اسی سال کے موسم خزاں میں انہیں خوشخبری ملی کہ وہ امید سے ہیں ۔ جولائی دو ہزار سترہ میں ان کی بیٹی کی پیدائش کے بعد ان کی زندگی ایک مخصوص ، معمول کے انداز کی ایک پرسکون زندگی تھی مگر حو کھون دیکھ رہا تھا کہ ان کی بیوی کچھ کھوئی کھوئی سی رہتی ہے اکثر خاموشی سے ٹہلتی رہتی ، کبھی کبھار وہ اپنے فوٹو البم کھو ل کر اسپورٹس ٹیم کی اپنی پرانی تصاویر دیکھتی اور کبھی دراز کھول کر اپنے تمغوں کو چھوتی۔ ایک دن حو کھون نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر آپ کھیلوں کی مشق اور تربیت دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہیں تو میں آپ کے ساتھ ہوں ۔ یہ سن کر حو جینگ یو کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اپنے شوہر کے بھرپور تعاون سے انہوں نے اس میدان میں واپسی کی تیاری شروع کر دی ۔
دو ہزار اٹھارہ کے جشن بہار کی تعطیلات ہوئیں تو حو کھون اپنی بیٹی کو صوبہ شاندونگ میں اپنے آبائی شہر لے گیا ۔جب کہ وو جینگ یو ،قومی تائیکوانڈو ٹیم کے تربیتی ہال میں اپنی ٹریننگ کر رہی تھیں ۔
ایک رات حو کھون اپنے خاندان کے ساتھ ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ حو کھون نے دیکھا کہ یہ ان کی بیوی کی ویڈیو کال ہے۔انہوں نے فوراً کال اٹھائی تو اسکرین پر پسینے میں شرابور وو جینگ یو نظر آئی ، وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہنے لگی ،میرا ہنر ، میری مہارت سب ختم ہوچکی ہے ۔"
دراصل بچی کی پیدائش کے بعد وزن میں اضافے ، فٹنس کی کمی ، جوڑوں کی تکلیف ، اور بچی کی یاد سمیت تمام پریشانیوں اور تکالیف نے وو جینگ یو کو جیسے توڑ کر رکھ دیا تھا ۔
وو جِینگ یو کی باتیں سن کر حو کھون نے ووجینگ یو کی تمام پریشانی محسوس کی اور توجہ سے تمام باتیں سننے کے بعد بے حد محبت اور خلوص کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ " کھیلوں کے میدان میں واپس آنا آپ کی اپنی خواہش ہے ، آپ تائیکوانڈوکو دل سے کھیلتی ہیں اور کھیلنا چاہتی ہیں۔ہم سب آپ کے ساتھ ہیں، پریشان نہ ہوں ، سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ اگر آپ ٹوکیو اولمپکس ۲۰۲۰ میں حصہ لے سکیں گی تو اس کے لیے بھر پور کوشش کریں ۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو تب بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ہم ۲۰۲۴ کے اولمپک مقابلوں میں شرکت کریں گے ۔ " شوہر کی باتیں سن کر وو جینگ یو پرسکون ہو گئیں ۔ اس کے بعد سے وہ معمول کے تربیتی کورسز کے علاوہ ہر رات تربیتی ہال کے بند ہوجانے تک اضافی مشق کرنے کے لیے وہاں رکتیں ۔
سال دو ہزار انیس کے جشن بہار سے ایک دن قبل متحدہ عرب امارات کے شہر فجیرہ میں وو جینگ یو نے بیٹی کی پیدائش کے بعد اپنے پہلے مقابلے میں سونے کا تمغہ جیتا اور اس موقع پر اس میدان میں اپنی واپسی کا اعلان کیا ۔ اُس وقت وہ عالمی درجہ بندی میں ۴۲ ویں نمبر پر تھیں ۔ ٹوکیو اولمپک گیمز میں کوالیفائی کرنے کے لیے ، اگلے دس مہینوں میں وو جینگ یو نے جرمنی ، برطانیہ ، جاپان ، بلغاریہ اور دیگر ممالک میں دس بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیا۔ ۳۰۷ کٹھن دنوں کے بعد ، ماسکو میں منعقدہ اولمپک پوائنٹس کے حصول کے آخری مقابلے میں وو جینگ یو نے چاند ی کا تمغہ جیتا تو وہ عالمی درجہ بندی میں چھٹے نمبر پر آگئیں ، اور بالآخر انہوں نے ٹوکیو اولمپکس کے لیے کوالیفائی کر لیا۔
رواں سال چوبیس جولائی کو جب چونتیس سالہ وو جینگ یو ٹوکیو اولمپک گیمز کے مقابلوں میں سامنے آئیں تو تائیکوانڈو کی تاریخ کی وہ پہلی خاتون کھلاڑی بن گئیں جنہوں نے مسلسل چار اولمپک گیمز میں حصہ لیا۔ ووجینگ یو کے ارادے بلند تھے ، تیاری میں انہوں نے جی جان ایک کیا تھا، لیکن مقابلہ کانٹے کا تھا ۔ وو جینگ یو تمام تر محنت کے باوجود تمغہ اپنے نام نہ کر سکیں ۔
مقابلے کے بعد وو جینگ یو نے گھر والوں کو ویڈیو کال کی ، رابطہ ہوا تو اسکرین پر مسکراتی ہوئی ان کی ۴ سالہ بیٹی نظر آئی ۔باوجود یہ کہ وہ نہیں سمجھتی تھی کہ یہ اولمپکس ،اس کی ماں کے لیے کتنے اہم ہیں، پھر بھی وہ کچھ اداس سی تھی ۔ لیکن ساتھ ہی اسے اس بات کی بہت خوشی بھی تھی کہ اس کی ماں اتنے بہت دنوں کے بعد اس کے پاس واپس آنے والی ہے ۔اس نے کہا " امی، میں آپ کو بہت یاد کرتی ہوں۔ جلدی واپس آجائیں ، میں نے ابو کے پاس نہیں آپ کے پاس سونا ہے ۔"
اپنی پیاری اور معصوم سی بیٹی کی باتیں سنتے ہوئے وو جینگ یو مسکراتی رہی ۔ دو دن بعد ، اس ننھی پری کی سالگرہ تھی اور ووجینگ یو کا خیال تھا کہ ٹوکیو اولمپکس کا طلائی تمغہ اپنی بیٹی کو اس کی چوتھی سالگرہ کے تحفے کے طور پر دیا جائے ، لیکن یہ خواب پورا نہیں ہو سکا ۔
چوبیس جولائی کو رات گئے وو جینگ یو نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا " رات بے حد طویل ہے ۔ اگر تمغہ میرا ہوتا تو یہ بہترین ہوتا لیکن یہی تو زندگی ہے ،یہاں کچھ بھی مکمل یا کامل نہیں ہے۔ اب مستقبل کے لیے نئی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔ ملک ، تائی کوان ڈو اور اپنے خاندان کے لیے میری جانب سے ایک نیا کردار ادا کیا جائے گا ۔ "