اٹھارہ اگست کو چین کے ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ ای نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ٹیلی فونک بات چیت کی۔
وانگ ای نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں میں افغانستان کے حالات میں کافی تبدیلی آئی ہے۔حقائق نے ثابت کیا ہے کہ نام نہاد "جمہوری تبدیلی" حقائق کے مطابق نہیں ہے اور اس میں بہت سے سبق ہیں جنہیں ذہن نشین کیا جانا چاہیے۔موجودہ صورتحال کے تحت ، چین اور پاکستان کے درمیان رابطے اور ہم آہنگی کو مضبوط بنانا ضروری ہے اور افغانستان میں اقتدار کی پرامن منتقلی اور علاقائی امن و استحکام کو برقرار رکھنے میں تعمیری کردار ادا کرنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے افغانستان میں تمام فریقوں کو اتحاد کو مضبوط بنانے اور ایک نیا سیاسی ڈھانچہ تشکیل دینا ہوگا جو افغانستان کے قومی حالات کے مطابق ہو جسے لوگوں کی حمایت حاصل ہو اور جو وسیع اور جامع ہو۔ دوسرا دہشت گردی پر ضرب لگانے کے لیے افغانستان کی حمایت کرنی ہے اور اسے دوبارہ دہشت گردی کا مرکز نہیں بننا چاہیے۔ تیسرا ، افغانستان میں چینی اور پاکستانی سفارت خانے اب بھی معمول کے مطابق کام کر رہےہیں، دونوں فریقوں کو افغان طالبان کے ساتھ مزید روابط قائم کرنے چاہئیں تاکہ افغانستان میں چینی اور پاکستانی اہلکاروں اور اداروں کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے ۔چوتھا یہ ہے کہ افغانستان کے بارے میں بین الاقوامی تعاون کو منظم انداز میں آگے بڑھایا جائے۔ پڑوسی ممالک کے منفرد کردار کو عملی جامہ پہنایا جانا چاہیے تاکہ افغانستان کی صورت حال بتدریج بہتری کے دائرے میں داخل ہو سکے۔
پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان چین کے ساتھ روابط مستحکم کرنے کے لیے آمادہ ہے اور افغان طالبان پر زور دے گا کہ وہ تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک جامع اور وسیع سیاسی ڈھانچہ بنائیں،جلد از جلد افغانستان کے پڑوسی ممالک کا احاطہ کرنے والا تعاون کا کثیر الجہتی میکانزم قائم کریں اور بین الاقوامی برادری افغانستان میں امن اور استحکام کے حصول کی کوششوں کے لیے تمام دھڑوں کی حمایت کرے۔