" بیلٹ اینڈ روڈ " عالمی ترقی کے لیے مواقع اور امید کا ٹھوس وژن

2021-09-08 10:21:47
شیئر:

 

"  بیلٹ اینڈ روڈ " عالمی ترقی کے لیے مواقع اور امید کا ٹھوس وژن_fororder_q

چینی صدر شی جن پھنگ نے سات ستمبر 2013 کو  قازقستان کی نذر بایوف یونیورسٹی میں ایک اہم خطاب کیا ، جس میں اُن کی جانب سے پہلی مرتبہ "سلک روڈ اکنامک بیلٹ" کی مشترکہ تعمیر کی تجویز پیش کی گئی۔آج چین کی جانب سے پیش کردہ  "بیلٹ اینڈ روڈ"   انیشیٹو کو  8 سال مکمل ہوچکے ہیں۔ گزشتہ 8 سالوں کے دوران  "بیلٹ اینڈ روڈ"  سے وابستہ  ممالک نے  ترقی کے مضبوط مواقع اور نتیجہ خیز ثمرات حاصل کیے ہیں۔ رواں  سال جون تک  140 ممالک  چین کے ساتھ  " بیلٹ اینڈ روڈ " انیشیٹو کے تحت  تعاون کی دستاویزات پر دستخط  کر چکے ہیں ۔چین اور شراکت داروں کے  درمیان مجموعی تجارتی حجم 9.2 ٹریلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ  "بیلٹ اینڈ روڈ " سے وابستہ ممالک میں چینی کاروباری اداروں کی مجموعی براہ راست سرمایہ کاری 130 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز  کر گئی ہے ۔  اس وقت دنیا کے وسیع اور عظیم ترین بین الاقوامی تعاون کے پلیٹ فارم کی حیثیت سے  "بیلٹ اینڈ روڈ" انیشیٹو نے مختلف ممالک  اور خطوں کو باہمی سود مند تعاون  اور مشترکہ  ترقی کا نیا موقع  فراہم  کیا ہے ۔

چینی کہاوت ہے کہ ایک نکتہ سے پوری تصویر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری" بیلٹ اینڈ روڈ "کا ایک اہم  حصہ  ہے۔ سی پیک کی تعمیر   سے  پاکستان میں 25 بلین ڈالر سے زائد کی براہ راست سرمایہ کاری کی گئی ہے اور 70ہزار سے زیادہ براہ راست  روز گار   کے مواقع  پیدا  ہوئے ہیں ، اس سے  بلاشبہ مقامی  لوگوں کے معیار  زندگی میں بہتری اور پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی کو مضبوطی سے فروغ دیا گیا ہے ۔  مثال کے طور پر  پاکستان میں بجلی کی قلت کا مسئلہ کافی حد تک دور ہو گیا ہے۔اس ضمن میں صرف دارالحکومت اسلام آباد کی ہی بات کی جائے تو  گزشتہ عرصے کے دوران یہ دیکھا گیا کہ یہاں شہریوں کو موسم گرما کے دوران شدید گرمی کے باوجود  یومیہ  آٹھ دس گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا تھا   ، جس سے عوام کی روزمرہ زندگی اور معاشی تعمیر بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔ تاہم سی پیک کے تحت کئی پن بجلی گھر وں اور تھرمل پاور پلانٹس کی تکمیل کی بدولت پاکستان میں بجلی کی کمی کا مسئلہ نمایاں  حد تک حل ہو چکا ہے  ۔ توانائی کے منصوبوں کے علاوہ ٹرانسپورٹ جیسے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں بھی قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ چین میں ایک مقبول کہاوت ہے کہ " اگر آپ امیر  ہونا چاہتے ہیں تو پہلے سڑک کی تعمیر کریں " ۔ چین کی معاونت سے تعمیر  شدہ میٹرو ٹرین اور شاہراہوں کی بدولت  شہروں کے درمیان آمدورفت میں نمایاں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں جس سے پاکستان کی معاشی و سماجی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کیا گیا ہے ۔ اس وقت سی پیک کی تعمیر دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے ۔ باہمی تعاون کا دائرہ مزید وسیع ہو چکا ہے ۔  صنعت ، زراعت ،انفارمیشن ٹیکنالوجی ، صحت اور ثقافت سمیت دیگر شعبہ جات سی پیک کے ڈھانچے میں شامل ہو چکے ہیں  ۔ رواں سال اٹھائیس مئی کو پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں رشکئی خصوصی اقتصادی زون کے قیام  کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری فریم ورک کے تحت  پہلے صنعتی پارک  کی تعمیر کا با ضابطہ آغاز ہو چکا ہے۔ مقامی رائے عامہ کے مطابق اس منصوبے سے آس پاس کے علاقوں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے  ثمرات لائے جائیں گے ۔جیسا کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور دیگر  مختلف قومی رہنماوں کا کہنا ہے کہ چین۔ پاک اقتصادی راہداری کی تعمیر ، پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ امید ہے کہ چین کے ساتھ تعاون کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اور  چین کے شاندار ترقیاتی تجربات  سے استفادہ کرتے ہوئے  سی پیک کی اعلیٰ معیار کی ترقی  کے  ذریعے پاکستان کے لیے ایک بہتر  مستقبل یقینی بنایا جائے گا۔

" بیلٹ اینڈ روڈ "  انیشیٹو پر عمل درآمد  کے گزشتہ آٹھ سالوں میں  سی پیک نے ٹھوس نتائج حاصل کیے ہیں۔تاہم کچھ امریکی سیاستدانوں اور مغربی میڈیا نے حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے نام نہاد "قرضوں کے جال" کا پروپیگنڈا کیا۔  لیکن آج کی دنیا میں لوگ انصاف پسند ہیں اور پاکستانی حکام بھی واضح کر چکے ہیں کہ  "سی پیک سے متعلق قرض پاکستان کے مجموعی قرضوں کا 5 فیصد سےبھی  کم ہے۔  سی پیک کے حوالے سے قرض کے جال کا الزام  بالکل بے بنیاد اور مکمل طور پر غلط ہے۔"

غربت سے نجات ، معاشی ترقی کا فروغ  اور بہتر زندگی کی جستجو  ، دنیا کے تقریباً سبھی  ممالک کی مشترکہ خواہشات ہیں ، اور  یہی وجہ ہے کہ چین کے "  بیلٹ  اینڈ روڈ"انیشیٹو   کو  عالمی سطح پر وسیع پزیرائی اور نمایاں حمایت حاصل ہے ۔ "بیلٹ اینڈ روڈ"  سے وابستہ ممالک اس سے   باہمی سود مند تعاون اور اشتراکی ترقی کے مواقع پا رہے ہیں ۔ یہ تعاون اور " جیت جیت"  پر مبنی پائیدار ترقی کا راستہ ہے۔

عالمگیر وبا سے نمٹتے ہوئے عالمی معیشت کو مزید چیلنجز کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی برادری کی مشترکہ خواہش ہے کہ معاشی نمو کو بحال کیا جائے۔ اس وقت ، چینی معیشت کی مستحکم ترقی اور مضبوط کھلے پن کے  تناظر میں " بیلٹ اینڈ روڈ "  بین الاقوامی تعاون مزید قوت محرکہ دکھائے گا ۔  اس کی کھلی اور  اشتراکی نوعیت ،  حقیقی تعاون کا طریقہ کار ، باہمی  ثمرات اور  جیت جیت کا تصور  نیز مشترکہ ترقی کا ہدف ، یہ تمام عوامل دوسرے ممالک کے لیے پرکشش ہیں ۔  " بیلٹ اینڈ روڈ "  تمام ممالک کی ترقی کے لیے نئے مواقع سامنے لا رہا ہے ۔   مجھے یقین ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک اس میں شامل ہوں گے اور  روشن مستقبل کی تشکیل  ، بنی نوع انسان کے مفاد  اور انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کے قیام کےلیے مشترکہ کوشش کریں گے ۔