"9.11" دہشت گرد حملے کی 20 ویں برسی کے موقع پر ، امریکہ کی طرف سے افغانستان میں شروع کی گئی جنگ ناکامی پر اختتام پذیر ہوئی۔ امریکہ کی جانب سے افغانستان سے عجلت میں کئے گئے فوجی انخلا کے آخری لمحات میں ، انتہا پسند تنظیم "داعش" کی شاخ نے افغان دارالحکومت کابل میں بم دھماکے کیے ، جس کے نتیجے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف ایک ایسی جنگ" جس میں 20 سال لگے ، بیس کھرب امریکی ڈالرز سے زیادہ خرچ ہوئے اور بیس ہزار سے زیادہ امریکی فوجی ہلاکتیں ہوئیں ، اتنی بڑی شکست پر کیوں ختم ہوئی؟ تمام دنیا اس کا مشاہدہ کر رہی ہے۔
جیسا کہ کچھ تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے ، اس کی ناکامی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ امریکہ انسداد دہشت گردی کے امور پر محض اپنے مفادات کے مطابق کام کرتا ہے ، اور دہشت گردی اور دہشت گرد کارروائیوں کی تصدیق کرتے وقت دوہرے معیارات اپناتا ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے امریکہ کے انہی "دوہرے معیارات" نے دہشت گردی کی ترقی اور پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
در حقیقت ، افغانستان ، عراق اور دیگر ممالک میں فوجی کارروائیاں شروع کرتے وقت امریکہ کی سوچ اپنی بالادستی کا قیام تھا نہ کہ دہشت گردی کا خاتمہ، امریکہ نے ان ممالک کی حکومتوں کو ختم کرنے کے اپنے ارادے کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے جوڑنے کی کوشش کی۔اس نام نہاد انسداد دہشت گردی کی جنگ میں درپردہ مقاصد شامل تھے ۔ اس نے درحقیقت متعلقہ علاقوں اور ممالک میں تنازعات اور ہنگاموں کو ہوا دی ، جس کے نتیجے میں دہشت گرد حملوں کی پے درپے لہریں آتی رہیں۔
اس کے علاوہ ، امریکہ کا ایک اور خطرناک نکتہ نظر یہ ہے کہ وہ "انسداد دہشت گردی" کے بینر تلے ،اپنے نظریات اور سرد جنگ کی ذہنیت کے تحت انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو تقسیم سے دوچار کرتا ہے۔ اپنےغلبے کو برقرار رکھنے کے لئے امریکہ دوہرے معیارات کا استعمال کررہا ہے۔ "اپنا فائدہ ہو تو تعاون کرو"، "اپنا فائدہ نہ ہو تو اختلافات کے بہانے راہ الگ کر لو"، امریکہ کے اس کھیل نے انسداد دہشت گردی کے میدان میں مختلف ممالک کے درمیان باہمی اعتماد کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ یہ طرز عمل دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی اپنی کوششوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔