چینی ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ ای نے 15 تاریخ کو چار پڑوسی ممالک کے کامیاب دورے مکمل کیے۔ بیرونی دنیا نے وانگ ای کے تین جنوب مشرقی ایشیائی ممالک بشمول ویت نام ، کمبوڈیا اور سنگاپور کے دوروں پر خاصی توجہ مرکوز کی ہے۔ سیاسی باہمی اعتماد سازی کے فروغ ،انسداد وبا اور معاشی تعاون میں مضبوطی کے نقطہ نظر سے یہ دورے اس بات کا مظہر ہیں کہ چین اور آسیان ممالک کے درمیان تعاون ، بیرونی طاقتوں کی مداخلت سے نمٹ سکتا ہے اور علاقائی امن و استحکام کو برقرار رکھ سکتا ہے۔
رواں سال چین اور آسیان کے درمیان مذاکراتی تعلقات کے قیام کی 30 ویں سالگرہ ہے۔ چینی وزیر خارجہ کے دورہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ وبا سے نمٹنے اور عملی تعاون کو گہرا کرنے کے حوالے سے چین کی مخلصانہ آمادگی ہے۔
در حقیقت وبائی صورتحال میں چین اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک نے ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے اور مل کر مشکلات پر قابو پایا ہے۔ اگرچہ وبائی اثرات کے باعث عالمی معاشی ترقی کی غیر یقینی صورتحال میں نمایاں اضافہ ہوا ہے لیکن چین اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے مابین معاشی تعاون کا پیمانہ اب بھی کافی وسیع ہے۔ رواں سال اگست تک چین اور آسیان کے درمیان مجموعی تجارتی مالیت میں 22.8 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور آسیان چین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے۔ابھی حال ہی میں اختتام پزیر ہونے والی 18 ویں چین۔آسیان ایکسپو میں 179 بین الاقوامی اور ملکی تعاون کے منصوبوں پر دستخط کیے گئے ہیں جن کی مجموعی مالیت 300 ارب یوآن سے زائد ہے ، گزشتہ ایکسپو کی نسبت اس میں شرح اضافہ 13.7 فیصد ہے ۔
بحیرہ جنوبی چین کے حوالے سے بھی چین نے واضح کر دیا ہے کہ وہ آسیان ممالک کے ساتھ " بحیرہ جنوبی چین کےضابطہ اخلاق" سے متعلق مذاکرات میں تیزی لانے کا خواہاں ہے اور جلد مذاکرات مکمل کرنے کی امید رکھتا ہے۔ اس حوالے سے متعلقہ ممالک نے بھی مثبت جواب دیا ہےجس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اور آسیان ممالک اپنے معاملات کو احسن طور پر آگے بڑھانے کی خواہش اور صلاحیت رکھتے ہیں ۔درحقیقت آسیان ممالک تسلیم کرتے ہیں کہ بیرونی قوتوں کے پیادے بننے سے بچنا ایک معقول اور دانش مندانہ حکمت عملی ہے ، اور یہ خطے کے بہترین مفاد میں بھی ہے۔