رواں سال تیس مارچ سے دو اپریل تک شنگھائی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل دیلادیمیر نوروف ،چین میں تعینات پاکستانی سفیر جناب معین الحق سمیت بیس سے زائد ممالک کے سفارتکاروں نے چین کے سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے کا دورہ کیا۔دورے کے بعد پاکستانی سفیر نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی اور انتہاپسندی سے سنگین طور پر متاثر ہوا ہے اور ان کے انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان چین کے ساتھ کھڑا ہے۔اس موقع پر شنگھائی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل نوروف نے سنکیانگ میں قابل تجدید توانائی کی ترقی کا تذکرہ کیا اور ایس سی او کے سیاحتی تعاون کے نظام کے تحت سنکیانگ میں سیرو سیاحت کو فروغ دینے پر آمادگی اظہار کی۔اس دورے میں شنگھائی تعاون کے دو اہم پہلو شامل ہیں:سیکورٹی اور معیشت ۔
تجزیہ نگاروں کے خیال میں ایس سی او کا تعاون کئی مراحل پر مشتمل ہے:ابتدا میں سکیورٹی تعاون کو ترجیج دی جاتی تھی،پھر اقتصادی و تجارتی تعاون بھی شامل ہوا اور اب اس تعاون کو ثقافتی تبادلوں تک توسیع دی جا رہی ہے۔علاقائی استحکام کے لیے سیکورٹی کا تعاون ہی بنیاد ہے ،جب کہ اقتصادی و تجارتی تعاون سے عوام کی زندگیوں میں خوشحالی لائی جائے گی جوکہ ترقی کا مقصد ہے،ثقافتی تبادلوں سے باہمی روابط کو مزید گہرائی تک پہنچایا جائے گا ، باہمی تفہیم فروغ پائے گی جس سے ایک پرامن ماحول تشکیل ہو گا اور اسی عمل سے استحکام و ترقی کو مزید مضبوطی مل جائے گی۔
تینوں شعبوں میں تعاون کے میدان باہم مربوط ہیں، ایک دوسرے کو مضبوط بناتے ہیں جس سے شنگھائی تعاون تنظیم کو پائیدار طور پرترقی مل رہی ہے۔ پاکستان ۲۰۱۷ میں ایس سی او کا رکن ملک بنا اور اس تنظیم میں پاکستان کی منفرد اہمیت ہے۔
رواں سال ایس سی او کے قیام کو بیس سال ہو چکے ہیں ،اور افغان صورتحال کے پیش نظر اس پلیٹ فارم کو خاص اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ ایس سی او کے مبصر ملک کی حیثیت سے افغانستان میں امن و امان علاقائی ممالک سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے سترہ ستمبر کو منعقدہ ایس سی او سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ پاکستان افغان صورتحال سے سنگین متاثر ہے۔انہوں نے کہا ،"ہمیں اسی ہزار سے زائد زندگیوں اور ۱۵۰ بلین ڈالرز کے مالی نقصانات پہنچے ہیں۔"علاقائی استحکام و ترقی کے لیے افغانستان میں امن و امان کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن ، بیس سال تک امریکہ اور اس کے اتحادی افغانسان میں فوجی مداخلت کرتے رہے اور تعمیر نو میں ناکام رہے ،جس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ دوسرے ممالک میں فوجی مداخلت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی پائیدار حل نہیں ہے۔انسداد دہشت گردی کے لیے بھی ہر ایک ملک کی خودمختاری کا بھرپور احترام کیا جانا چاہئے اور اندرونی معاملات کے حل کے لیے ہر ایک ملک کا خود پر انحصار کرنا اس کا حق ہے۔گزشتہ بیس برسوں میں ایس سی او رکن ممالک کے درمیان انسداد دہشت گردی کا تعاون جا ری ہے جس میں انفرمیشن اور تجربات کے اشتراک، مشترکہ فوجی مشقیں وغیرہ شامل ہیں۔اس حوالے سے ایس سی او کے "عالمی اصول و ضوابط پر قائم رہنے" کا تصور بھی بہت اہم ہے جو بین الاقوامی تعلقات کا بنیادی اصول بھی ہے۔
سکیورٹی کے علاوہ ،ایس سی او اقتصادی و تجارتی تعاون کے لیے بھی ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے۔ایس سی او کے سیکرٹری جنرل دیلادیمیر نوروف نے رواں ماہ مشرقی اقتصادی فورم میں نشاندہی کی کہ شمالی سمندری شاہراہ اور بیلٹ اینڈ روڈ کے ملاپ سے سنگھائی تعاون تنظیم ممالک ،آسیان اور یورپی یونین کو جوڑنے والی ایک عالمی اقتصادی راہداری بن جائے گی۔ایس سی او کے تحت یور یشیا اقتصادی یونین اور بیلٹ اینڈ روڈ کا اشتراک عالمی اقتصادی ترقی کے لیے انجن فراہم کرے گا۔اس کے ساتھ ساتھ ایس سی او کے ڈھانچے کے تحت اقتصادی تعاون کا بھی وسیع مستقبل ہے۔وزیر اعظم پاکستان نے اپنے خطاب میں بھی ذکر کیا ہے کہ پاکستان جیو-اکنامکس پر اپنی توجہ منتقل کرے گا۔پاکستان وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کو ملانے والا ایک قدرتی پل ہے اور وسطی ایشیائی شراکتداروں کے لیے سمندر تک ایک مختصر ترین راستہ فراہم کر سکتا ہے۔
پاکستان ۲۰۱۷ میں ایس سی او کا رکن ملک بنا جس کے بعد ایس سی او کے ساتھ ای کامرس ،سیاحت سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کی دستاویزات طے پائے ہیں ۔ رواں سال جنوری میں چین کے صوبہ چھنگ داؤ میں شنگھائی تعاون تنظم کے تجرباتی زون میں "پاکستان-چائنا سینٹر"قائم ہوا ہے ۔
وزیرا عظم عمران خان نے موجودہ سمٹ میں ۲۰۲۲ میں " علاقائی خوشحالی کے لیے ٹرانسپورٹ کنیکٹیویٹی " اور "ڈیجیٹل اکانومی کے ذریعےنوجوانوں کو ترقی دینے " کے موضوع پر ایک کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کی۔ سی پیک کی مشترکہ تعمیر سے مختلف علاقوں کے درمیان روابط کو بھی مزید مضبوط بنایا جائے گا۔
کووڈ-۱۹ کی وبا کے مقابلے میں ویکسین کی فراہمی،طبی سازوسامان اور طبی معلومات کے اشتراک سمیت دیگر سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا۔رکن ممالک کے درمیان زراعت، سیروسیاحت، ادب و فن، ماحولیاتی تحفظ،یوتھ کی ترقی سمیت دیگر ثقافتی و افرادی تبادلے بھی جاری ہیں،جس سے رکن ممالک کے عوام کی باہمی افہام و تفہم میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایس سی او ، رکن ممالک کے لیے ثقافتی تعاون کے بھی کافی مدد گار ہے۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے ایس سی او کی موجودہ سمٹ سے خطاب میں نشاندہی کی کہ گزشتہ بیس سال شنگھائی تعاون تنظیم کی بھرپور ترقی اور رکن ممالک کے باہمی مفادات اور تعاون میں نمایاں ثمرات کے حامل بیس سال ہیں۔"باہمی اعتماد ،باہمی مفادات،مساوات،مشاورت،متنوع تہذیبوں کا احترام ،مشترکہ ترقی کی جستجو" پر مبنی شنگھائی اسپرٹ کی رہنمائی میں ایس سی او سیاسی باہمی اعتماد کو بڑھانے ،سلامتی و استحکام کی حفاظت کرنے،خوشحالی و ترقی کو فروغ دینے،عالمی انصاف و مساوات کے قیام اور امن و ترقی کو مستحکم بنانے کے لیے مزید مثبت کردار ادا کرے گی اور نئے طرز کے بین الاقوامی تعلقات کی تشکیل اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لیےاہم تصور اور تجربات فراہم بھی کرے گی۔ بے شک ایس سی او کے ڈھانچے کے تحت پاکستان نہ صرف اپنی ترقی کے نئے مواقع حاصل کرے گا بلکہ علاقائی و عالمی استحکام،انٹرکنیکشن کو فروغ دینے میں بھی اپنا منفرد کردار ادا کرے گا۔