"جمہوریت کسی ملک کا پیٹنٹ نہیں ہے بلکہ تمام ممالک کے لوگوں کا حق ہے۔" 22 تاریخ کو منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی 76 ویں جنرل اسمبلی کی عام بحث میں چینی صدر شی جن پھنگ نے اپنی اہم تقریر میں جو بیان دیا ، عالمی برادری نے اس پر پرجوش رد عمل ظاہر کیا - اگلے دن جب امریکہ میں چینی سفیر نے کارٹر سینٹر اور جارج بش فاؤنڈیشن برائے امریکہ چین تعلقات میں تقریر کی تو انہوں نے تفصیل سے چینی طرز کی جمہوریت کی وضاحت کی۔
چین اور مغربی ممالک کے تعلقات کو "جمہوریت بمقابلہ آمریت" کے طور پر پیش کرنے کا عمل اپنے آپ میں غیر جمہوری ہے۔ امریکہ یک طرفہ طور پر "جمہوریت" کا تعین کرنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کا اہل نہیں ہے ، اور دوسروں پر اپنے معیارات کو مسلط کرنے، یا اسے نام نہاد "جمہوری اصلاحات " کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے معروضی حالات مختلف ہیں ، اور ہر ملک کو اپنے اپنے قومی حالات کے مطابق جمہوری نظام منتخب کرنے کا حق ہے جو عوام کی مرضی کی نمائندگی کرتا ہو اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے مطابق ہو۔
جمہوریت ڈسپلے نہیں ہے ، اسے کارآمد ہونا چاہیے۔تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ چین میں جمہوری سیاست بہت کارگر ہے۔ 1.4 بلین چینی باشندوں کو مطلق غربت سے نجات دلانے سے لے کر ، دنیا میں پہل کرکے کووڈ۱۹پر قابو پانے اور کئی سالوں سے عالمی معاشی نمو میں 30 فیصد سے زیادہ حصہ ڈالنے تک ، چینی حکومت کی طرز حکمرانی نے دنیا کو حیران کردیا ہے۔ فرانسیسی ریگولیشن سکول کے بانی مشیل اریٹا نے نشاندہی کی کہ "چین عوام کی فلاح و بہبود کو بھر پور انداز میں فروغ دیتا چلا آ رہا ہے ،یہ حقیقی جمہوریت ہے۔"