بائیس تاریخ کو امریکی صدر جو بائیڈن نے "نوول کورونا وائرس وبا سے متعلق عالمی سربراہی ویڈیو کانفرنس" کی میزبانی کی۔
کانفرنس کے دوران ، بائیڈن نے وبا کے خلاف عالمی جنگ میں امریکہ کی "شراکت" کا بار بار ذکر کیا ، اور غیر ملکی ویکسین امدادی منصوبے کے اگلے مرحلے کا اعلان کیا۔ تاہم ، رائے عامہ نے امریکی فریق کے اس اجلاس کے بلانے کے وقت اور اس کے "عظیم اہداف" کے بارے میں ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔
امریکہ ایک طویل عرصے سے اس سربراہی اجلاس کے لیے ماحول بنا رہا تھا اور اسے "وبا کے جواب میں سربراہان مملکت کا سب سے بڑا سربراہی اجلاس" قرار دے رہا تھا۔ لیکن اس کے برعکس کچھ بڑے ممالک کے رہنما اس اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئے۔ یہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ عالمی برادری کو وبا کے خلاف عالمی جنگ کی قیادت کرنے کی امریکہ کی صلاحیت اور حوصلہ افزائی کے بارے میں گہرے شکوک و شبہات ہیں۔
وبا کے خلاف جنگ میں دنیا کا پہلا ناکام ملک ہونے کے ناطے امریکہ میں اب تک 42.5 ملین سے زائد افراد میں نوول کورونا وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے ، اور اس کے نتیجے میں 680،000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اموات کی یہ تعداد ہسپانوی فلو کے دوران اموات کی تعداد سے تجاوز کر گئی ہے اور اسے امریکی میڈیا نے "خوفناک سنگ میل" کہا ہے۔
اس کے علاوہ ویکسین کے عالمی تعاون میں بھی امریکہ کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ امریکہ اپنے ملک میں وبا کے خلاف شعور اجاگر کرنے میں ناکام رہا ہے۔اس صورت حال میں امریکہ کا خود کو وبا کے خلاف جنگ میں عالمی رہنما کہنا بہت بڑی ستم ظریفی ہے۔امریکی سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ وبا پر سیاست کرنے کے غلط انداز کو روکیں ، اور اپنے ملک میں وبا کی روک تھام اور کنٹرول میں اچھا کام کریں ، اور دنیا کو اپنے پیچھے گھسیٹنا اور افراتفری پیدا کرنا چھوڑ دیں!