ہواوے ٹیکنالوجیز کی سی ایف او مینگ وان ژو کینیڈا میں تقریباتین سال زیرِ حراست رہنے کے بعد ، چوبیس ستمبر کو کینیڈا سے چین کے لیے روانہ ہوئیں ۔ان کی وطن واپسی کے لیے چینی حکومت کی جانب سے ایک چارٹرڈ فلائٹ کا انتظام کیا گیا ۔ان کی رہائی نہ صرف انصاف اور قانونی عمل کی کامیابی ہے بلکہ چینی حکومت اور حکمراں پارٹی کی جانب سے اپنے عوام کے جائز قانونی حقوق و مفادات کی حفاظت کے پختہ عزم کا واضح ثبوت بھی ہے ۔ یہ چینی عوام کے طاقت سے خوفزدہ نہ ہونےاور بالادستی کی مخالفت کرنے کے طاقتور عزم کی مظہر بھی ہے۔
یاد رہے کہ دسمبر ۲۰۱۸ میں کینیڈا نے امریکہ کی درخواست پر مینگ وان ژو کو وینکوور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اس وقت گرفتار کیا جب وہ میکسیکو جا رہی تھیں ۔ یہ سیاسی جال پھیلنے اور اس میں پھنسانے کا واقعہ تھاجس کا مقصد چین کی ہائی ٹیک کمپنی پر دباؤ ڈالنا تھا۔ اس کیس کے انچارج کینیڈین جج نے بھی متعدد مرتبہ کہا تھا کہ مینگ وان ژو پر لگائے گئے امریکی الزامات "غیرواضح " اور "غیرمعمولی" ہیں۔
اس واقعے کے بعد چینی حکومت کینیڈا سے انہیں رہا کرنےکا مطالبہ کرتی رہی۔جولائی میں امریکی نائب وزیر خارجہ کے دورہ چین کے دوران چین نے امریکہ کو دو مطالبے پیش کیے جن میں ایک مینگ وان ژو کو امریکہ تحویل میں دینے کےفیصلے کو منسوخ کرنا تھا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے دوران چین نے کینیڈا پر بھی زور دیا کہ وہ مینگ وان ژو کی غیرقانونی حراست کو ختم کر دے۔
چین کی حکمراں پارٹی اور چینی حکومت نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ حقیقت میں عملی طور پر "عوام کے لیے حکمرانی " اور "عوام کو اولین ترجیح دینا" کیا ہوتا ہے۔
مینگ وان ژو نے رہائی کے بعد اپنے جذبات کو یوں بیان کیا کہ"یہ چین کا چمکیلاسرخ رنگ ہی ہے جس نےمیرے دل میں اعتماد کی لو کو روشن رکھا ۔" مینگ وان ژو کے یہ جذبات ، چینی عوام کے دل کی آواز ہیں۔