تیس اکتوبر کو چین کے صدر شی جن پھنگ نے بیجنگ سے ویڈیو لنک کے ذریعےسولہویں جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے پہلے مرحلے میں شرکت کی۔ اپنی تقریر میں انہوں نے بنی نوع انسان کو درپیش موجودہ مشکلات اور چیلنجز کے پیش نظر جی 20 کو اس کی ذمہ داریاں نبھانے میں مدد دینے کے لیے 5 نکاتی تجاویز پیش کیں۔
اس کے علاوہ، جی ٹوئنٹی کو عالمی معیشت کے عمل میں موجود مسائل سے کیسے نمٹنا چاہیے، اس بارے میں بھی صدر شی جن پھنگ نے دو پہلووں سے تجاویز دیں۔ ایک، چین اس بات پر زور دیتا ہے کہ جی ٹوئنٹی کے رکن ممالک کو میکرو اکنامک پالیسی کوآرڈینیشن کو مضبوط بنانا چاہیے اور پالیسی کے تسلسل، استحکام اور پائیداری کو برقرار رکھنا چاہیے؛ دوسری، چین عالمی تجارتی تنظیم کے ساتھ کثیرالطرفہ تجارتی نظام کے تحفظ کا حامی ہے اور ترقی پذیر ممالک کے حقوق اور ترقی کے حقوق کی ضمانت دینے پر زور دیتا ہے۔ چین اپیل کرتا ہے کہ جلد از جلد ڈبلیو ٹی او کے تحت تنازعات کے تصفیے کے طریقہ کار کے معمول کے عمل کو دوبارہ شروع کیا جائے۔ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ تجاویز نا صرف دنیا کی بڑی معیشتوں کی میکرو پالیسیز کو درست کرنے میں مددگار ہیں بلکہ عالمی اقتصادی نظم و نسق کے نظام اور قواعد کو بہتر بنانے اور عالمی اقتصادی نظام کی ترقی کو زیادہ منصفانہ، اور مناسب سمت لے جانے میں بھی مدد گار ہیں۔
"حقیقی کثیرالجہتی پر عمل کریں اور بنی نوع انسان کےہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دیں"- جیسا کہ صدر شی جن پھنگ نے کہا، "عوام،کرہِ ارض اور خوشحالی" کے موضوع کے ساتھ روم سمٹ عالمی اقتصادی حکمرانی کی اصلاحات کی قیادت کرنے کے جی ٹوئنٹی کے مشن کو ظاہر کرتی ہے. ایک اہم رکن اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر، چین اپنے کھلے پن کو وسعت دیتا رہے گا، اپنی ترقی کے ذریعے تمام ممالک کے لیے مزید نئے مواقع لائے گا، عالمی معیشت کو مزید نئی قوت محرکہ فراہم کرے گااور جی ٹوئنٹی کو اس کی ذمہ داریاں نبھانے میں مدد دےگا۔