تین تاریخ کو بیجنگ میں قومی سائنس و ٹیکنالوجی ایوارڈز کانفرنس منعقد ہوئی۔ چین کے صدر شی جن پھنگ نے ایوار ڈ پانے والی شخصیات کو ذاتی طور پر اعزازات سے نوازا۔ جدت طرازی کو چین کے ترقیاتی عمل میں اولین قوت کا درجہ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں چین کی اہم سائنسی اور تکنیکی اختراعات مثلاً انسان بردار خلائی پرواز، قمری تحقیق ، گہری سمندری تحقیق، اور کوانٹم مواصلات ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ علاوہ ازیں "اسکائی آئی" تکمیل کے بعد لانچ ہو چکی ہےجبکہ بیڈو نیویگیشن سسٹم کا نیٹ ورک بھی مکمل ہو چکا ہے ۔ملک میں سپر کمپیوٹرز، فائیو جی مواصلات اور دیگر اعلیٰ ترین آلات کی تیاری کا عمل مسلسل جاری ہے۔اس وقت چین عالمی اختراع میں ایک متحرک قوت بن چکا ہے۔ " گلوبل انوویشن انڈیکس رینکنگ 2020" کے مطابق چین تیزی سے ترقی کرتے ہوئے 2015 میں 29 ویں درجے سے اب 14 ویں درجے پر آ چکا ہے۔
اس وقت چین دنیا میں انسانی وسائل کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے جس میں تمام شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ملک میں پیشہ ورانہ اور تکنیکی عملے کی تعداد 2010 میں 55.504 ملین سے بڑھ کر 2019 میں 78.398 ملین ہو چکی ہے۔ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سے وابستہ افراد کی مجموعی تعداد مسلسل 8 سالوں سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔چین 2020 میں بین الاقوامی پیٹنٹ درخواستوں کی مجموعی تعداد 68720 کے ساتھ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔
چین کی شاندار اختراعی کامیابیوں کے ضابطے میں نہ صرف سائنسی اور تکنیکی صلاحیتوں کی اہمیت اور تربیت شامل ہے بلکہ اس میں سائنسی اور تکنیکی اختراعات کے تبادلے کے لیے کھلا رویہ بھی شامل ہے۔ چین ہمیشہ سے بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود اور انسانی معاشرے کی ترقی کے لیے سائنسی اور تکنیکی صلاحیتوں کے فروغ پر عمل پیرا ہے۔یہ چین کی جانب سے بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کے تصور کا ایک اور واضح عمل ہے، اور "اختراعی چین" کی جانب سے دنیا کے لیے ایک اہم شراکت ہے۔