چین میں قانون کی حکمرانی سے متعلق بین الاقوامی فورم بارہ تاریخ کو بیجنگ میں منعقد ہوا۔مذکورہ فورم کا موضوع تھا " بیلٹ اینڈ روڈ، بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی قواعد کی جدت اور بہتری" ۔ چین، روس، پاکستان اور دیگر ممالک کے مندوبین اور متعلقہ بین الاقوامی تنظیموں نے "کلاؤڈ میٹنگ" کے ذریعے عالمی قوانین اور معیارات میں مربوط ہم آہنگی جیسے مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔اس دوران " بیلٹ اینڈ روڈ" ممالک میں مستحکم معاشی و تجارتی تعلقات کے حوالے سے تجاویز بھی پیش کی گئیں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تیزی سے بدلتی اور ترقی کرتی ہوئی دنیا میں نہ صرف انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی کی ترقی بلکہ قوانین اور قواعد و ضوابط بھی اختراعی اور ترقی پسند ہونے چاہئیں۔ یہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ " بیلٹ اینڈ روڈ" سے وابستہ ممالک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور مشترکہ خوشحالی کے حصول کے لیے ہموار شاہراہ پر سفر کر رہے ہیں۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری قوانین میں جدت اور بہتری کے حوالے سے سب سے طاقتور مثال چین پاکستان اقتصادی راہداری معاہدہ اور مفاہمت کی یادداشت کا فروغ ہے۔ نومبر 2003 میں پاکستان اور چین نے دوطرفہ تعاون کی ترقیاتی سمت کے بارے میں ایک مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے، 2006 میں دونوں ممالک نے آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کیے، یہ ان قانونی قواعد کی اختراع اور ترقی کا نتیجہ ہی ہے جس نے سی پیک کے ہموار آغاز کو یقینی بنایا ہے۔ " بیلٹ اینڈ روڈ " انیشیٹو کی تیز رفتار ترقی 21ویں صدی میں اقتصادی ترقی کے اعتبار سے اہم ترین کامیابی بن رہی ہے۔ لہذا " بیلٹ اینڈ روڈ" میں تجارتی اور سرمایہ کاری اختلافات سے نمٹنے اور تصفیے کا ایک مضبوط، متنوع اور جامع طریقہ کار قائم کرنے کی ضرورت ہے، متعلقہ قانونی قواعد میں مزید گہری تحقیق سے بہتری لانی چاہیے ۔علاوہ ازیں " بیلٹ اینڈ روڈ" انیشیٹو کی کامیابی کے لیے ایک سازگار کاروباری ماحول کا قیام بھی ایک بنیادی شرط ہے۔