چار تاریخ کو چینی حکومت نے "چین میں فعال جمہوریت" کے عنوان سے ایک وائٹ پیپر جاری کیا جس میں چین کے جمہوری تصورات، جمہوری نظام اور کامیاب جمہوری طرز عمل کو جامع طور پر متعارف کروایا گیا ہے ۔ وائٹ پیپر میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ "عوام ہی ملک کے حکمران ہیں۔ یہی چینی جمہوریت کا نچوڑ اور مرکز ہے۔"
دوسری جانب مغربی ممالک نے ایک طویل عرصے سے چین کے جمہوری نظام سے بیگانگی اور اس کی تحریف کی ہے کیونکہ مغربی انتخابی نظام میں "ایک شخص، ایک ووٹ" اور جماعتی مقابلے کو جمہوریت کا واحد معیار قرار دیا جاتا ہے۔ گزشتہ 100 سالوں میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مسلسل تحقیق، بالخصوص سی پی سی کی 18ویں قومی کانگریس کے بعد سے عوامی جمہوریت کے عمل کو جس بھرپور طریقے سے فروغ دیا گیا ہے، نے ظاہر کیا ہے کہ جمہوریت کے حصول کے کئی طریقے ہیں۔
انتخابات کی ہی مثال لی جائے تو چین میں تمام سطحوں پر عوامی کانگریس میں نائبین کا انتخاب براہ راست انتخابات اور بالواسطہ انتخابات کے امتزاج کو اپناتا ہے۔اسی طرح ملک میں قانون سازی یا دیگر تمام بڑے فیصلے جمہوری غور و فکر اور سائنسی و جمہوری فیصلہ سازی کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔فیصلہ سازی کے عمل میں نچلی سطح سے زیادہ سے زیادہ آوازوں کو شامل کیا جاتا ہے اور یہی عوامی رائے ، حکومت کے بڑے فیصلوں میں بدل جاتی ہے۔
حقائق کے تناظر میں حقیقی جمہوریت کے صرف دو ہی معیار ہیں یعنیٰ عوام کا اطمینان اور عوام کاحکومت پر اعتماد ۔ نائیجیرین سنٹر فار چائنیز سٹڈیز کے ڈائریکٹر چارلس اوونائیجو کا خیال ہے کہ چین نے اپنے قومی تقاضوں اور عوامی امنگوں پر مبنی جمہوری طرز حکمرانی کا ایک ماڈل تلاش کر لیا ہے۔ مغربی اداروں کی سروے رپورٹس بھی ظاہر کرتی ہیں کہ چینی عوام کی اپنی حکومت پر اعتماد کی شرح ہر سال 90 فیصد سے زائد رہتی ہے۔ یہ چینی جمہوریت کی مضبوط قوت کا سب سے حقیقی عکاس ہے۔
جمہوریت متنوع ہے اور دنیا رنگین ہے۔ چینی جمہوریت کا کامیاب ماڈل ثابت کرتا ہے کہ مغربی طرز کی جمہوریت ، جمہوریت کی واحد اور جامع شکل نہیں ہے۔ چین آئندہ بھی عوامی جمہوریت کے ہمہ گیر عمل کو آگے بڑھائے، بین الاقوامی تعلقات کی جمہوری اقدار کو فروغ دے گا اور انسانی سیاسی تہذیب کی ترقی اور پیشرفت کو ترقی دے گا۔