وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے حال ہی میں دھمکی آمیز رویہ اپناتے ہوئے کہا کہ امریکہ تائیوان میں چینی فوج کی حکمرانی کو روکنے کے لیے اپنی صلاحیت کے مطابق تمام اقدامات کرے گا ۔آبنائے تائیوان کے اطراف میں جنگی جہاز بھیجنے سے لے کر متعدد مرتبہ تائیوان میں امریکی فوجی طیاروں کی لینڈنگ تک ؛ تائیوان انتظامیہ کی عالمی حیثیت کو بڑھانے میں معاونت سے لے کر انہیں نام نہاد "جمہوریت سمٹ" میں شرکت کے لیے مدعو کرنے تک، امریکہ گزشتہ آٹھ مہینوں سے انڈوپیسفیک خطے میں انہی حربوں پر عمل پیرا ہے۔امریکہ آبنائے تائیوان میں استحکام کو نقصان پہنچاتے ہوئے واضح طور پر شعلوں کو ہوا دے رہا ہے اور ایک بحران پیدا کر رہا ہے۔ چین کی فوجی مشقیں اور جنگی طیاروں کی گشت کا مقصد بیرونی مداخلت اور تائیوان میں علیحدگی پسند قوتوں کو روکنا ہے۔ یہ چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے ایک منصفانہ اور جائز اقدام ہے۔
بے شمار تجزیوں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ امریکہ کے تائیوان حکام کے ساتھ کیے گئے سیکورٹی وعدے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہیں کہ تائیوان کو چین پر قابو پانے کے لیے ایک پیادے کے طور پر استعمال کیا جائے، یہ امریکی ہتھیاروں کے سوداگروں کے لیے ایک کیش مشین اور ملکی تنازعات سے توجہ ہٹانے کا ایک آلہ ہے۔ امریکہ میں عمومی رائے پائی جاتی ہے کہ تائیوان چین کے بنیادی مفادات سے جڑا معاملہ ہے، اگر امریکہ "تائیوان کی حفاظت" کی خاطر چین کے ساتھ مقابلے کے لیے اپنے تمام وسائل صرف کرتا ہے تو یہ ایک تباہی ہوگی۔
چین کا موقف بالکل واضح ہے کہ وہ انتہائی خلوص سے آبنائے تائیوان کی پرامن وحدت کے لیے اپنی بھرپور کوشش کرے گا ، لیکن اگر تائیوان کی علیحدگی پسند قوتیں اشتعال انگیزی کرتی ہیں یا سرخ لکیر کو توڑتی ہیں، تو لازماً سخت اقدامات اپنانا ہوں گے۔