حالیہ دنوں پاکستان کے وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق سید فخر امام نے کہا کہ پاکستان چینی زرعی سائنس اکیڈمی کے ساتھ زرعی شعبے میں تعاون کو فروغ دے گا۔اس حوالے سے ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ دسمبر دو ہزار اکیس میں پاکستان نے اپنی تاریخ کا پہلا مجموعی 'ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان' بنایا ہے ، اور اسے پاکستان میں زرعی شعبے کا ترجیحی منصوبہ قرار دیا گیا ہے۔ پاکستانی زرعی شعبے میں ترقی کی بڑی گنجائش موجود ہے اور سی پیک کے تحت اس شعبے میں چین اور پاکستان میں تعاون کے وسیع تر امکانات موجود ہیں۔
زرعی شعبے میں تعاون پاکستان اور چین دونوں ممالک کے تعاون کا اہم حصہ رہا ہے۔ پاکستان میں زراعت ایک اہم شعبہ ہے جس میں روزگار کے نصف مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ جب کہ چین بھی ایک بڑا زرعی ملک ہے۔ دونوں ممالک کے مابین زرعی شعبے میں تعاون کی وسیع گنجائش ہے۔ پاکستان کے پاس وسیع زرعی رقبے کی بدولت بے شمار وسائل اور کسانوں کی بڑی تعداد کی صورت افرادی قوت موجود ہے۔ ان وسائل اور افرادی قوت کا بہترین استعمال کرتے ہوئے چین میں بڑی مارکیٹ تلاش کی جا سکتی ہے۔ پاکستانی آم،چیری اور کینو سمیت عمدہ معیار کی دیگر زرعی مصنوعات چین میں پسند کی جاتی ہیں۔ جب کہ چین میں زرعی شعبے میں سائنسی تحقیقات کو کافی فروغ دیا گیا ہے ، ای –کامرس کی ترقی سے زرعی پیداوار کی فروخت کو آسان بنایا گیا ہے ۔ زرعی شعبے کے ماہرین کے خیال میں بیج کے وسائل، آبپاشی کی ٹیکنالوجی،میکانائزیشن کے پہلوؤں سے دونوں ممالک تعاون کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ،غربت کے خاتمے میں دونوں ممالک کے درمیان بھی تبادلہ ہو سکتا ہے۔
سی پیک کی تعمیرسے پاک-چین زرعی تعاون کو وسیع ترقی حاصل ہوئی ہے۔ اس شعبے نے اس قیمتی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اہم پیش رفت ظاہر کی ہے ۔ 2011 سے 2019 تک پاکستان اور چین کے درمیان زرعی مصنوعات کی تجارت کا حجم 490 ملین امریکی ڈالر سے بڑھ کر 830 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے جس میں شرح اضافہ تقریباً 70 فیصد ہے۔ تیئیس نومبر کو " پاکستانی پیاز کی چین برآمد کے لیے معائنہ اور قرنطینہ کی ضروریات کے پروٹوکول" پر باضابطہ دستخط کیے گئے۔ یہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں زرعی مصنوعات کی برآمدات کے لیے دستخط کیے جانے والا پہلا معاہدہ ہے۔
تجزیہ نگاروں نے نشاندہی کی کہ سی پیک کی تعمیر دوسرے مرحلے میں داخل ہونے کے ساتھ ساتھ زرعی تعاون کو مزید اہمیت دی جا رہی ہے۔ سال دو ہزار اٹھارہ میں ہی دونوں حکومتوں نے زرعی تعاون کی مشترکہ ورکنگ ٹیم قائم کی، پھر مارچ دو ہزار بیس میں سی پیک کے تحت زراعت کی ورکنگ ٹیم کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ یوں اس شعبے میں مزید امکانات سامنے آ رہے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ سی پیک کے پہلے مرحلے کی تعمیر سے بنیادی تنصیبات کی بہتری ہوئی ہے ،خاص کر انٹرکنیکشن کی مضبوطی سے زرعی مصنوعات کی باہمی تجارت کو سہولیات میسر آئی ہیں۔ دوسرا یہ کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے تبادلوں کو فروغ دیا گیا ہے جس سے زرعی پیداوار کو سائنسی معاونت مل رہی ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ افرادی تبادلوں سے زرعی شعبے میں ہنر مند افراد کی تربیت کو مضبوط بنایا گیا ہے۔
زرعی تعاون مشترکہ مفادات پر مبنی ہے۔ اس سے سی پیک کے مفادات کسانوں سمیت تمام عام پاکستانیوں تک پہنچ رہے ہیں۔ دوسری طرف،چین بھی پاکستان سے تعاون کے ذریعے مزید قیمتی عملی تجربات حاصل کر ے گا ،نیز چینی صارفین کو بھی مزید اعلیٰ معیار کی پاکستانی زرعی مصنوعات مل سکیں گی۔ چینی صدر شی جن پھنگ نے چھبیس اکتوبر کو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ٹیلی فونک بات چیت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ چین۔ پاک اقتصادی راہداری کی مشترکہ تعمیر میں زراعت،ڈیجیٹل معیشت اور عوامی زندگی سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ سی پیک کی اعلیٰ معیار ترقی کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے عوام سی پیک کے ثمرات کو مزید براہ راست محسوس کر سکیں گے۔