مختلف ممالک، قومیتوں اور مذہبی عقائد کے پس منظر میں لوگوں کے اپنے اپنے خاص تہوار ہیں۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو چین میں سب سے اہم تہوار جشن بہار ہے ۔ اگر آپ یہ پوچھنا چاہیں کہ دنیا کے تمام لوگوں کا مشترکہ تہوار کیا ہے تو جواب ضرور اولمپک گیمز ہو گا۔ لہٰذا، ایسے وقت میں جب چینی لوگ اپنا سب سے بڑا تہوار جشن بہار منا رہے ہیں، بیجنگ میں منعقد ہونے والے 2022 سرمائی اولمپکس کو بنی نوع انسان کا سب سے بڑا تہوار کہا جا سکتا ہے،جو بلاشبہ بیجنگ کو اس وقت دنیا کا سب سے خوش کن مقام بنا دے گا۔
سرمائی اولمپکس میں شرکت کے لیے بیجنگ آنے والی 32 بین الاقوامی شخصیات میں، بین الاقوامی تنظیموں جیسا کہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی، اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت ، شنگھائی تعاون تنظیم، ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کے سربراہان اور یورپ، ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے 25 ممالک کے رہنما اور شاہی ممبران سمیت دیگر اہم شخصیات شامل ہیں۔ یہ غیر ملکی معززین کی سب سے بڑی تعداد ہے جو وبا کے بعد دو سال سے زائد عرصے میں چین تشریف لا رہی ہے۔جہاں کچھ یورپی ممالک اور امریکہ ، سنکیانگ اور وبا سے متعلق مختلف بہانوں کی آڑ لیتے ہوئے چین پر قابو پانے اور اسے دبانے کی کوشش کر رہے ہیں ،وہاں دوست احباب کا ایک ایسا پروقار اور طاقتور گروپ چینی عوام کے ساتھ جشن بہار کا تہوار منانے ، اور تمام بنی نوع انسان کے لئے سرمائی اولمپکس کا مشترکہ جشن منانے کے لئے چین آ رہا ہے ،واقعی یہ جذبہ مبارک باد کا مستحق ہے۔
چین تشریف لانے والے مذکورہ بالا 32 بین الاقوامی معززین میں عرب ممالک اور دیگر مسلم ممالک کے رہنماء اور شاہی خاندان کے افراد نمایاں توجہ کے حامل ہیں جن میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان، قطر کے امیر ، متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اور مصر کے صدر شامل ہیں۔اور ہاں یقیناً پاکستان کے وزیراعظم عمران خان بھی ہیں، جو چینی عوام کے انتہائی مانوس اور مضبوط دوست " پاکستانی آہنی بھائی" کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب سنکیانگ سے متعلق امریکہ اور مغرب کے نام نہاد "نسل کشی" اور "جبری مشقت" جیسے جھوٹ پھیلائے جا رہے ہیں، چین میں مسلم دوستوں کا اجتماعی دورہ اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ مسلم دنیا ان جھوٹوں پر یقین نہیں رکھتی ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ مقروض لوگ زیادہ جھوٹ بولتے ہیں ۔ کون کمزوروں پر دھونس جما رہا ہے، بے گناہوں کو اندھا دھند قتل کر رہا ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور پوری دنیا میں ان گنت خون کے قرضوں کا ذمہ دار ہے، با ضمیر لوگ یہ سب کچھ صاف صاف دیکھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ چینی شہریوں میں امریکہ اور مغرب کے دوہرے رویوں سے متعلق ایک عام کہاوت مشہور ہے کہ "ہم شام میں مسلمانوں کو مار رہے ہیں ، ہم فلسطین میں مسلمانوں کو مار رہے ہیں اور ہم افغانستان میں مسلمانوں کو مار رہے ہیں۔ اب ہمیں واقعی چین کے سنکیانگ میں مسلمانوں کے انسانی حقوق کی فکر ہے۔"
بلاشبہ جس بات نے چینی عوام کو حد سے زیادہ خوشی دی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے بہترین دوست پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان چینی عوام کو مبارکباد دینے کے لیے دوبارہ چین تشریف لا رہے ہیں۔ چینی عوام کبھی نہیں بھولیں گے کہ جب بھی چینی دوستوں کے لیے کوئی خوشی کا موقع ہوتا ہے تو پاکستان ہمیں مبارکباد دینے کے لیے ضرور آتا ہے اور جب ہمیں کسی مشکل یا تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پاکستان ضرور چین کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور ہماری حمایت کا اظہار کرتا ہے۔ یاد رہے کہ کووڈ- ۱۹ کی وبا پھیلنے کے بعد، پاکستانی رہنماء وبا کے باوجود چین کا دورہ کرنے والے پہلے غیرملکی مہمان تھے ، جنہوں نے چینی حکومت اور عوام کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔ جب امریکہ اور مغرب بیجنگ سرمائی اولمپکس کے بائیکاٹ کا دعویٰ کر رہے تھے، پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے فوری طور پر کہا کہ بیجنگ سرمائی اولمپکس کی مکمل حمایت کے لیے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت اور تین روزہ سرکاری دورے کے لئے چین جائیں گے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی بیجنگ سرمائی اولمپکس میں شرکت اور دورہ چین کے فیصلے نے نہ صرف چین اور پاکستان کے درمیان دوستانہ تعلقات کو مزید گہرا کیا ہے بلکہ اُن ممالک کے لیے بھی ایک اچھی مثال قائم کی ہے جو ابھی تک غیر یقینی کا شکار ہیں ۔ اس کے علاوہ مغربی ممالک کے چین مخالف بے بنیاد الزامات کے خلاف یہ ایک طاقتور جوابی حملہ ہے۔
جناب عمران خان نے 27 تاریخ کو اسلام آباد میں چینی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ دورہ بیجنگ کے منتظر ہیں اور انہوں نے بیجنگ سرمائی اولمپکس کے انعقاد کے لیے چین کی کوششوں کو بھی سراہا۔ انہوں نے کہا: "یہ پہلے اولمپکس بالخصوص سرمائی اولمپکس ہیں جن کا میں مشاہدہ کروں گا، اس لیے میں اس کا انتظار کر رہا ہوں۔ میں اپنی زندگی کے تقریباً 20 سال ایک کھلاڑی رہا ہوں۔ چینی کرکٹ نہیں کھیلتے ، مجھے امید ہے کہ ہمیں چینیوں کو کرکٹ سکھانے کا موقع مل سکتا ہے، تاکہ چین بھی ایک بہترین کرکٹ ٹیم تشکیل دے سکے۔ چین کے موسم سرما کے کھیل بہت مضبوط ہو رہے ہیں۔اگرچہ شمالی پاکستان میں سکی کے وافر وسائل موجود ہیں لیکن انہیں بہتر طور پر استعمال میں نہیں لایا گیا ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ سرمائی اولمپکس کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے برفانی کھیلوں میں چین کے ساتھ تعاون کیا جائے گا۔
مجھے یاد ہے کہ میں پہلی بار 1987 میں لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں پڑھنے گیا تھا، میں جہاں بھی گیا، چاہے وہ سڑکیں ہوں، ریستوران ہوں یا طالب علموں کے ہاسٹل ہوں، ہر جگہ پاکستانی قومی ہیرو عمران خان کے باولنگ پوسٹر نظر آتے تھے جو کسی فلم سٹار سے بھی زیادہ خوبصورت اور پرکشش لگتے تھے. 10 سال قبل جب عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے پارٹی سربراہ کی حیثیت سے چین کے دورے پر آئے تو میں نے ان کا ایک خصوصی انٹرویو لیا تھا۔ اس لیے میں پاکستانی وزیر اعظم کے دورہ چین کا بے حد منتظر ہوں، اور میں مستقبل میں چین اور پاکستان کے درمیان کھیلوں کے شعبے میں مزید تبادلوں کا منتظر ہوں، تاکہ دونوں ممالک کے درمیان کھیلوں کی مشترکہ ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔ یقیناً، میں امید کرتا ہوں کہ وزیر اعظم عمران خان کسی وقت خود بھی چینی کھلاڑیوں کو اچھی طرح سے کرکٹ کھیلنے کا طریقہ سکھائیں گے۔ دنیا کے مایہ ناز کرکٹ سٹار کی کوچنگ میں، یقیناً چین میں بھی لوگ کرکٹ کو زیادہ پسند کریں گے اور اس میں حصہ لیں گے۔
ایک ایسا شہر جسے سرمائی اولمپکس اور سمر اولمپکس دونوں کی میزبانی کا اعزاز مل رہا ہے ، بیجنگ دنیا بھر کے دوستوں کو "ڈبل تہواروں" کے ساتھ خوش آمدید کہتا ہے۔دو ہزار آٹھ میں بیجنگ سمر اولمپکس کے دوران گایا ہوا ایک چینی گیت کا بول کچھ یوں ہے:
میرے گھر کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے
کھلے بازوؤں کے ساتھ آپ کا انتظار ہے
گلے لگنے کے بعد،دل آپس میں جڑتے ہیں
آپ کو یہاں سے پیار ہو جائے گا
بیجنگ آپ کو خوش آمدید کہتا ہے
ہر خواب دیکھنے والا عظیم ہے
ہمت ہو تو معجزہ ضرور ہوگا