بارہ فروری کو امریکی صدر بائیڈن نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ فون پر ایک مرتبہ پھر دعویٰ کیا کہ اگر روس نے یوکرین پر "حملہ" کیا تو اسے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ردعمل سے بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔ اس حوالے سے پوٹن نے زور دیتے ہوئے کہا کہ روس کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ امریکہ کیوں دانستہ میڈیا کے سامنے نام نہاد غلط معلومات افشاء کر رہا ہے کہ روس نے یوکرین پر "حملے" کا منصوبہ بنایا ہے۔ اسی دن یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک بیان میں کہا کہ تاحال"یوکرین میں کوئی مکمل جنگ نہیں ہے۔"
حالیہ دنوں تنازعے کے دونوں فریق یعنیٰ روس اور یوکرین ، متعدد مرتبہ جنگ نہ کرنے سے متعلق اپنی رضامندی کا اظہار کر چکے ہیں، لیکن دوسری جانب امریکہ، ایک ماورائے اختیار ملک کے طور پر "جنگ قریب ہے" کے ماحول کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہے۔ روس کے یوکرین پر حملے کے خطرے کو امریکہ کیوں بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے؟
اول، واشنگٹن روس کے "خطرے" کو تیز کرتے ہوئے یورپ میں ایک خاص حد تک تزویراتی تناؤ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ یورپی ممالک، بالخصوص مشرقی یورپی ممالک اور سابق سوویت ریاستیں اُس کے احکامات پر مزید قریبی عمل کریں۔ دوسرا، امریکہ کا مقصد جنگی بحرانوں کو بھڑکاتے ہوئے معاشی فوائد کے حصول کے لیے تصادم کو ہوا دینا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یوکرین بحران میں شدت آنے کے بعد سے امریکہ نے بڑی تعداد میں یوکرین کو ہتھیار فراہم کیے ہیں اور تین بالٹک ممالک سے امریکی ساختہ میزائل اور دیگر ہتھیار یوکرین منتقل کرنے کی بھی منظوری دی ہے۔ اس کے پس پردہ فطری طور پر امریکی فوجی صنعتی گروپ کا مفاد ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے نزدیک وائٹ ہاؤس کی جانب سے "نارتھ اسٹریم-2" قدرتی گیس پائپ لائن منصوبے کو ختم کرنے کی حالیہ دھمکی یورپی ممالک کو مجبور کرنا ہے کہ وہ روس پر توانائی کے انحصار سے نجات حاصل کریں اور یورپ میں توانائی کے حوالے سے امریکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے حالات پیدا کریں۔