یکم مارچ کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں 22 غیر ملکی سفارتی مشنز کے سربراہان بشمول یورپی یونین کے رکن ممالک نے حکومت پاکستان کو ایک مشترکہ خط بھیجا جس میں پاکستان سے یوکرین میں روس کی خصوصی فوجی کارروائیوں کی مذمت میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کی حمایت کرنے کو کہا گیا۔ اس کے جواب میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے 6 تاریخ کو ایک سیاسی تقریب میں جواب دیا: "تمہاری نظر میں ہم کیا ہیں؟ کیا ہم تمہارے غلام ہیں کہ تم جو بھی کہو گے ،ہم کریں گے؟"
یہ درحقیقت ایک طویل عرصے سے دبی ہوئی آواز ہے، جو دنیا کے بہت سے ممالک کی آواز کی نمائندگی کرتی ہے جو ایسی ہی صورتحال اور تجربے سے دوچار ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں سے امریکہ اور بعض یورپی ممالک نے کمزور ممالک پر غنڈہ گردی کی انتہا کر رکھی اور بہت سے ممالک کو اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اپنی جارحانہ کارروائیوں اور غنڈہ گردی کی حمایت پر مجبور کیا ہے۔ حمایت نہ کرنے کی صورت میں ان ممالک کو جبر و دباؤ کا سامنا کرنے کی دھمکیاں دی گئیں ، عالمی برادری دراصل طاقت کے مظاہرے کا میدان اور جنگل بن چکی ہے جہاں طاقتور کمزور پر ظلم و تشدد کرتے ہیں۔
پاکستان کی طرح ،چین کو بھی امریکہ نے دھمکیاں دیں اور ڈرایا: وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے 24 فروری کو کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ چین سمیت تمام ممالک یہ انتخاب کریں کہ انہیں تاریخ کی کس جانب کھڑا ہونا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو مجسم انصاف ہیں اور ان سے اختلاف کرنا تاریخ اور انصاف کے مخالف رخ پر کھڑا ہونے کے مترادف ہے۔ اس سلسلے میں، چینی وزارت خارجہ کی ترجمان، ہوا چھون اینگ نے نشاندہی کی: "جہاں تک قومی اقتدار اعلی اور علاقائی سالمیت کے احترام کا تعلق ہے، امریکہ شاید اس بات کا اہل نہیں ہے کہ چین کو بتائے کہ کیا کرنا چاہیے!"۔
ظاہر ہے کہ دنیا کے پیشتر ممالک کسی سیاسی امور کے بارے میں حقیقت اور غلط و درست کی بنیاد پر اپنے اپنے موقف کا فیصلہ کرتے ہیں۔لیکن امریکی سیاست دان صحیح اور غلط کی بنیاد پر اپنے سیاسی موقف کا انتخاب نہیں کر سکتے اور صرف سیاسی مفادات اور ممکنہ فائدہ و نقصان کے پیش نظر ہی اپنے موقف کا انتخاب کرتے ہیں۔ جب وہ غنڈہ گردی کے لیے اپنی سیاسی سازشوں کا جواز پیش نہیں کر سکتے، تو وہ یا تو جان بوجھ کر انسانی مسائل کو سیاست میں بدل دیتے ہیں، یا خفیہ طور پر انسانی حقوق اور انسداد دہشت گردی جیسے بہانوں اور جوازوں سے اپنے سیاسی حساب کتاب کو چھپاتے ہیں، اور پھر اخلاقی بلندی پر کھڑے ہو کر، انسانی حقوق کے محافظ کے لباس میں ملبوس ہوتے ہوئے بار بار دوسرے ممالک کے خلاف جنگ چھیڑتے ہیں ۔ پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انہوں نے "امن کو برقرار رکھنے کے لئے "صومالیہ میں مسلح مداخلت اور کوسوو جنگ کا آغاز کیا ، "جارحیت کے خلاف" اور "بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تباہی" کے نام پر خلیجی جنگ کا آغاز کیا، "شہریوں کی حفاظت کے لئے " پاناما میں جارحیت کی، اور لیبیا میں "انسداد دہشت گردی " کے فضائی حملے کئے اور افغانستان میں دو دہائیوں پر محیط جنگ کا آغاز کیا۔ اور اس بار، وہ ایک بار پھر انسانی مسئلہ کو سیاسی رنگ دینے کی چال کھیل رہے ہیں، وہ تنازعہ کی تاریخی وجوہات اور حقیقت کو چھوڑ کر ، انسان دوستی کا پرچم لہراتے ہوئے دوسرے ممالک کو سیاسی وابستگی کے اظہار کے لئے مجبور کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب سربیا کے صدر الیگزینڈر وویچ سے روس کی مذمت کے لیے کہا گیا تو ان کا جواب تھا: آپ سب سے پہلے یوگوسلاویہ پر بمباری کے لیے نیٹو اور امریکہ کی مذمت کریں!
چینی عوام کا وہی درد ہے جیسا کہ صدر وویچ اور سابق یوگوسلاویہ کا ہے۔امریکہ کی مذکورہ دھمکیوں اور الزامات کے جواب میں ،چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چھون اینگ نے کہا کہ چینی عوام خاص طور پر قومی اقتدار اعلی اور علاقائی سالمیت کا حقیقی اور گہرا احساس رکھتے ہیں۔ ٹھیک 20 سال قبل سابق یوگوسلاویہ میں چینی سفارت خانے پر نیٹو نے بمباری کی تھی جس میں تین چینی صحافی ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے، نیٹو اب بھی چین کے خون کا مقروض ہے اور آج بھی ہمیں امریکہ اور اس کے نام نہاد "اتحادی" کے حقیقی خطرے کا سامنا ہے جو سنکیانگ، ہانگ کانگ اور تائیوان سے متعلق معاملات پر چین کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت کر رہے ہیں، جس سے چین کی خودمختاری اور سلامتی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ چین ہمیشہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں اور بین الاقوامی تعلقات کی پاسداری کرتا رہےگا اور ملک کی خودمختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کا تحفظ کرتا رہےگا۔ "
وزیر اعظم عمران خان نے بھی 6 تاریخ کو مذکورہ بالا سیاسی تقریب میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ پاکستان "کسی گروپ سے تعلق نہیں رکھتا۔" پاکستان "غیر جانبدار" رہے گا اور ان ممالک کے ساتھ تعاون کرے گا جو روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں .
ہمیں یقین ہے کہ دنیا بھر میں انصاف کے احساس کے حامل ممالک اور عوام کی مسلسل جدوجہد سے مغربی اور امریکی تسلط کی تاریخ کا خاتمہ ہو جائے گا اور دنیا بالآخر امن، ہم آہنگی اور پائیدار ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہوگی.