مقامی وقت کے مطابق 9 تاریخ کو امریکی ایوان نمائندگان نے
روس سے تیل، قدرتی گیس اور کوئلے کی درآمد پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ روس کے
خلاف اب تک کی سب سے سخت امریکی پابندیاں ہوں گی۔ اس حوالے سے یورپی شہریوں نے
افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر یہ پابندیاں روس کے خلاف نہیں ہیں
بلکہ"امریکہ یورپی یونین پر پابندیاں لگا رہا ہے "
حالیہ عرصے میں، توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے یورپی لوگوں کو شکوے شکایتوں پر مجبور کر دیا ہے۔ حقائق کے تناظر میں روس یورپ کو تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور یورپی یونین کی قدرتی گیس کا تقریباً 45 فیصد سپلائی کرتا ہے، اس صورتحال میں اگر تیل اور گیس کی برآمدات پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو یورپ کو توانائی کی قیمتوں میں مزید اضافے اور "ڈیمانڈ گیپ"کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ابھی حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے مشرقی
یورپ کے دورے کے دوران کہا تھا کہ نیٹو مشرقی یورپ میں اپنی فوجی موجودگی کو مزید
بڑھانے پر غور کر رہا ہے۔ یہ واضح امر ہے کہ اس کا مقصد یورپ کو امریکی کنٹرول سے
الگ ہونے سے روکنا ہے۔
اس وقت یورپ کو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد بدترین
بحران کا سامنا ہے۔ یورپ امریکہ کا ماتحت بن کر رہنا چاہتا ہے یا پھر سٹریٹجک
آزادی حاصل کرنا چاہتا ہے، یورپ کا یہ انتخاب یورپی براعظم کی تقدیر کا تعین کر رہا
ہے۔ خوش قسمتی سے یورپ کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ امریکہ کی پیروی کلی طور پر اس کے
اپنے مفاد میں نہیں ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے 8 تاریخ کو اپنے خطاب میں
اس بات پر زور دیا کہ روس کا ایک ملک اور ایک قوم کے طور پر احترام کیا جائے،
کیونکہ اگر روس یورپی براعظم کے امن میں شامل نہیں ہے تو یورپ میں دیرپا امن ناممکن
ہے۔