چودہ مارچ کو سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کے سیاسی بیورو کے رکن اور سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کے خارجہ امور کمیشن کے دفتر کے ڈائریکٹر یانگ جئے چھی نے اٹلی کے دارالحکومت روم میں امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی امور جیک سلیوان کے ساتھ ملاقات کی۔ فریقین نے چین-امریکہ تعلقات اور مشترکہ دلچسپی کے بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر واضح،تفصیلی اور تعمیری تبادلہ خیال کیا۔ موجودہ ملاقات نے چین امریکہ تعلقات کو صحت مند اور مستحکم ترقی کی درست راہ پر لانے کے لیے موقع فراہم کیا ہے۔
موجودہ ملاقات گزشتہ سال نومبر میں چین اور امریکہ کے سربراہوں کی ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے اعلیٰ عہدیداروں کی پہلی بالمشافہ ملاقات ہے ۔ دونوں ممالک کے سربراہوں کے اتفاق رائے کو عمل میں لانا چین امریکہ تعلقات کی موجودہ ترقی کا سب سے اہم کام ہے۔
گزشتہ چار مہینوں میں، چین دونوں سربراہان کے اتفاق رائے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سخت محنت کر رہا ہے، لیکن امریکہ کی جانب سے اس حوالے سے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔ تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت کا اعلان کرنے اور تائیوان کے دورے پر حکام کو بھیجنے سے لے کر ہند-بحرالکاہل کی حکمت عملی کے نئے ورژن کو جاری کرنے تک جو کچھ امریکا نے کیا ہے وہ اس کے اپنے وعدوں کے برعکس ہے، جس سے چین-امریکہ تعلقات کی معمول پر واپسی کی راہ میں مزید رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں ۔
موجودہ ملاقات کے دوران چین نے ایک بار پھر تائیوان، سنکیانگ، تبت اور ہانگ کانگ سے متعلق مسائل پر اپنا موقف بیان کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ ان مسائل کا تعلق چین کے بنیادی مفادات سے ہے اور یہ چین کے اندرونی معاملات ہیں ۔کسی غیر ملکی قوت کو ان میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔
چین اور امریکہ پر دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ عالمی امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ اس وقت یوکرین کی صورتحال عالمی برادری کے لئے ایک تشویشناک مسئلہ ہےاورموجودہ ملاقات میں بھی اس مسئلے پر بات ہوئی ہے۔ چین اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ یوکرینی مسئلے کے آغاز سے لے کر موجودہ صورت حال تک مختلف ممالک کی مناسب تشویش پر غور کیا جانا چاہیے اور اس کا جواب دیا جانا چاہیئے، عالمی برادری کو روس-یوکرین امن مذاکرات کی مشترکہ حمایت کرنی چاہیئے تاکہ جلد از جلد خاطر خواہ نتائج حاصل ہو سکیں گے ۔
یوکرین کے بحران کے آغاز کرنے والے کے طور پر، امریکہ کو ان تجاویز پر غور سے سوچنا چاہیے اور یوکرین کے بحران کے سیاسی حل کے لیے کوئی عملی اقدام کرنا چاہیے۔