حال ہی میں شامی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ
انس ابو نے میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا "شام میں دنیا نے ایک پوری قوم کا قتل
عام دیکھا جس میں بہت سارے مغربی ممالک شریک رہے ہیں جبکہ اس کے برعکس یوکرین میں
پوری مغربی دنیا اپنے لوگوں کی حفاظت کر رہی ہے"۔ انہیں مغربی ممالک کے دوہرے
معیارات سے شدید مایوسی ہوئی ہے ۔پندرہ مارچ
کو شام کے بحران کو 11 سال ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے حال ہی میں جاری کردہ اعداد
و شمار کے مطابق گزشتہ 11 سالوں میں کم از کم 350,000 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو
بیٹھے ہیں، 12 ملین سے زائد لوگ متعدد بار بے گھر ہو چکے ہیں، اور 14 ملین شہریوں
کو فوری طور پر انسان دوست امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو
گوئتریس نے تمام فریقین سے مطالبہ کیا کہ وہ سیاسی عمل کو تیز کرنے اور شامی عوام
کے لیے 11 سال سے جاری مصائب کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔تاہم، گوئتریس کی
اپیل کو مغربی دنیا میں زیادہ توجہ نہیں ملی ہے کیونکہ اس وقت امریکہ اور مغرب کی
توجہ یوکرین پر ہے۔یہ امر افسوسناک ہے کہ کچھ مغربی سیاست دان اور میڈیا ظاہری شکل
و صورت، رنگ و نسل وغیرہ کو معیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ایسے بیانات بھی
سامنے آئے کہ یوکرینی پناہ گزین افغانی اور عراقی پناہ گزینوں کی
نسبت مہذب، یورپی شہر ی ہیں۔ یوکرین کے بحران تک محض سیاسی مفادات کے حصول
اور امریکی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے شرمناک کردار ادا کیا
ہے۔